پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کا حملہ، 15 ہلاکتیں
6 مارچ 2017پاکستان آرمی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق افغانستان کی طرف سے داخل ہونے والے دہشت گردوں نے پاکستان کے شمال مغرب میں واقع مہمند ایجنسی میں تین چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔ تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ حملہ پاکستانی طالبان کے کس گروپ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ آزاد ذرائع سے ان فوجی دعووں کی تصدیق ممکن نہیں ہے کیوں کہ ان علاقوں میں صحافیوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستانی فوج کی موثر موجودگی اور مناسب جوابی کارروائی کی وجہ سے دہشت گردوں کا یہ حملہ پسپا کر دیا گیا ہے۔ فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے ’فوجیوں کی قربانیوں کی تعریف‘ کی ہے اور سرحد پر فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا کہا ہے۔
پاکستان نے دو ہفتے قبل دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان سے ملحق اپنی سرحد یہ کہتے ہوئے بند کر دی تھی کہ دہشت گرد افغانستان سے پاکستان کے اندر داخل ہو رہے ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پاکستان حکومت کی طرف سے تواتر کے ساتھ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ افغان حکومت ملک میں پاکستانی طالبان کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ پاکستانی طالبان کی ایک بڑی تعداد اس وقت افغانستان کی طرف فرار ہو گئی تھی، جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ دوسری جانب کابل حکومت کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ پاکستانی عسکریت ان کے ملک میں آ کر طالبان کے ساتھ مل کر ان کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پاکستانی فوج افغان سرحد کے اندر گولہ باری کرتے ہوئے وہاں موجود عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنا چکی ہے۔ اس گولہ باری کے بعد کابل حکومت کی طرف سے ملک میں تعینات پاکستانی سفیر کو طلب کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا، ’’ دہشت گرد ایک مشترکہ خطرہ ہیں اور انہیں سرحد پار کرنے کی آزادی نہیں دی جانی چاہیے۔‘‘
پاکستانی آرمی چیف نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ افغان سرحد کے اندر بھی پاکستانی فوجیوں کی موجودگی کی ضرورت ہے۔