1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان سرحد پر کشیدگی برقرار، مظاہرین کے خلاف مقدمات درج

14 جون 2024

پاک افغان سرحدی شہر چمن میں مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ سرحدی گزرگاہوں پر آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف جاری احتجاج میں پشتون قوم پرست جماعتوں نے بھی شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4h1Ar
مظاہرین نے اعلان کیا کہ ان کے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو احتجاج کا دائرہ ملک بھر تک پھیلا دیا جائے گا
مظاہرین نے اعلان کیا کہ ان کے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو احتجاج کا دائرہ ملک بھر تک پھیلا دیا جائے گاتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

چمن میں انسداد پولیو مہم کی روک تھام اور سرکاری دفاتر پر حملوں کے الزام میں گرفتار پانچ قائدین کا پولیس نے سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔جب کہ مظاہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر آپریشن کے دوران گرفتار درجنوں مظاہرین میں سے بیشتر کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

پاکستان: سرحدی شہر چمن میں کئی دنوں سے زندگی مفلوج کیوں ہے؟

چمن بارڈر: مظاہرین نے سینکڑوں ٹرکوں کو ’قبضے‘ میں لے لیا

پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کے خلاف سرحدی قبائل اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں نے گزشتہ سال اکتوبر میں احتجاجی دھرنا شروع کیا تھا۔ چند دن قبل دھرنے کے شرکاء اور فورسز میں جھڑپوں کے دوران درجنون افراد زخمی ہوگئے تھے جن میں سکیورٹی اہلکا ر بھی شامل تھے۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کہتے ہیں کہ چمن میں گرفتار دھرنا مظاہرین کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن قانون میں ہاتھ لینے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔  چمن میں گزشتہ دنوں جن افراد کو گرفتار کیا گیا دراصل ان کی وجہ سے شہرمیں قیام امن کی صورتحال خراب ہوئی تھی۔ مظاہرین نے بلاوجہ احتجاج کے دوران سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ ''

پاک افغان سرحد کشیدگی کے سائے میں دوبارہ کھل گئی

چمن میں پاکستانی فوج اور طالبان کے مابین سرحدی جھڑپ

شاہد کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت چمن میں سرحدی معاملات کی بہتری کے لئے کام کرر ہی ہے جس کے مثبت نتائج آئندہ چند دنوں میں سامنے آجائیں گے۔

مظاہرین سرحد پر پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے پر زور دے رہے ہیں
مظاہرین سرحد پر پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے پر زور دے رہے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

پاک افغان سرحد پر کشیدگی کی وجوہات کیا ہیں؟

چمن دھرنے میں شریک قبائلی رہنماء  رازق خان اچکزئی کہتے  ہیں کہ ریاستی اہلکاروں نے ان کے پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے خلاف ضابطہ اقدامات کئے جس سے حالات خراب ہوئے۔

ڈی ڈبلیو اردوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم یہاں کئی ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ پاک افغان سرحدی علاقوں کے ہزاروں لوگ حکومتی اقدامات کی وجہ سے بے روزگار ہوئے ہیں۔ ریاست اپنے مفادات کے لئے عوامی مفاد کو کچل رہی ہے۔ احتجاجی دھرنے  و ختم کرنے کے لیے ریاستی ادارے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ احتجاج کے دوران بے گناہ لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ مقامی لوگ اپنے حقوق کے لیے اب آواز بھی بلند نہیں کرسکتے۔ ''

رازق خان کا کہنا تھا کہ احتجاجی دھرنا مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا اور مظاہرین اپنے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا،''پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کے خلاف یہ احتجاج گزشتہ 8 ماہ سے ذائد عرصے سے جاری ہے۔ نئے امیگریشن قوانین کے نفاذ سے سرحدی تجارت سے وابستہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ لوگوں کے پاس کوئی متبادل روزگار نہیں ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف آباد قبائل ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔ ویزے اور پاسپورٹ کی شرط نے روزانہ کے اجرت پر کام کرنے والے لوگو ں کو نان شبینہ کا محتاج بنادیا ہے۔ احتجاجی دھرنے کے شرکاء نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا ہے جس کو حکومت پورا نہیں کرسکتی۔''

حکومت بلوچستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چمن میں گرفتار دھرنا مظاہرین کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے
حکومت بلوچستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چمن میں گرفتار دھرنا مظاہرین کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

مظاہرین کے مطالبات پر صوبائی حکومت بے اختیار کیوں؟

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ساجد ترین کہتے ہیں کہ پاک افغان سرحد پر نہتے لوگوں پر گولیاں برسا کر حکومت نے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''بلوچستا ن میں حکومتی اقدامات ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ صوبائی حکومت صوبے کے دیرینہ معاملات میں بے اختیار ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ مخلوط حکومت بھی عوامی ریلیف کے لیے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی۔ چمن میں جولوگ سراپا احتجاج ہیں انہیں راحت دینے کے بجائے مزید دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریاستی بے حسی کی وجہ سے چمن میں جھڑپوں کی صورتحال سرحد سے گلی کوچوں تک پہنچ چکی ہے۔''

ساجد ترین کا کہنا تھا کہ سرحدی قبائل کو ماضی کی طرح پاسپورٹ کے بجائے شناختی کارڈ پر آمدورفت کی اجاز ت دی جائے تاکہ ان کی مشکلات دور ہو سکیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ نئے امیگریشن قوانین کے نفاذ سے سرحدی تجارت سے وابستہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں
مظاہرین کا کہنا ہے کہ نئے امیگریشن قوانین کے نفاذ سے سرحدی تجارت سے وابستہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

سرحدی کشیدگی سے نمٹنے کے لیے حکومت کیا کررہی ہے؟

مظاہرین اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ صوبائی حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے  ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

مظاہرین نے حکومتی کمیٹی کو گرفتار رہنماوں کی فوری رہائی، ان کے خلاف درج مقدمات ختم کرنے سمیت دیگر مطالبات پیش کئے ہیں۔

پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کہتے ہیں بعض عناصر نے سیاسی مقاصد کے لیے چمن میں شورش  پیدا کی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''سرحدی گرزگاہوں کے لئے پاسپورٹ اور ویزا کی شرائط نافذکرنے کا فیصلہ نیشنل ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ سال کیا گیا تھا۔ یہ وفاقی حکومت کا فیصلہ ہے اور اسے زبردستی کوئی ختم نہیں کراسکتا۔ احتجاج کے دوران شہریوں کو پرتشدد واقعات کے لیے منظم سازش کے تحت اکسایا گیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم  ہوا ہے کہ جن لوگوں نے احتجاج کے دوران حملے کئے ہیں ان میں کئی ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کا چمن سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ "

انہوں نے مزید کہا،"صوبائی پارلیمانی کمیٹی نے مظاہرین سے اب تک جو مذاکرات کئے ہیں وہ بے نتیجہ رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے مظاہرین کے جائز مطالبات کے حل کی یقین دہائی کرائی ہے لیکن وہ سرحد پر پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے پر زور دے رہے ہیں جو کہ صرف وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے ''

خالق اچکزئی کا کہنا تھا کہ 'ون ڈاکومنٹ رجیم' کا فیصلہ صرف چمن کے لیے نہیں بلکہ بادینی بارڈر سمیت دیگر سرحدی گزرگاہوں کے لیے بھی قابل عمل ہے۔

چمن میں جاری احتجاجی دھرنے میں پشتون قوم پرست جماعت، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی،  اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکن بھی شامل ہو گئے ہیں۔

قوم پرست جماعتوں کی کال پر گزشتہ روز کوئٹہ میں مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلی بھی نکالی گئی۔ ریلی سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو ملک بھر میں حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دی جاسکتی ہے۔