پاک افغان غیر محفوظ سرحد اور پولیو کا پھیلاؤ
9 مئی 2014پانچ مئی کو عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر پولیو کے پھیلاؤ کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں دنیا کے تین ممالک پاکستان، شام اور کیمرون کو پولیو کے پھیلاؤ کا مرکزو محور قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے کئی سفارشات پیش کیں، جن میں سب سے اہم یہ تھی کہ ان تینوں ممالک کی حکومتیں غیر ملکوں کا سفر کرنے والے اپنے باشندوں کو پولیو کے حفاظتی ٹیکے لگانے کے ساتھ ساتھ اس کا سرٹیفیکیٹ جاری کریں۔
پولیو معذوری کا سبب بننے والا ایک مہلک مرض ہے جو وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میں پاکستان میں پولیو کے 91 کیس درج ہوئے جبکہ اُس سے پہلے سال یعنی 2012ء میں یہ تعداد 58 تھی۔
ڈبلیو ایچ او کی طرف سے ہنگامی صورتحال کے اعلان کے بعد حکومت پاکستان نے پولیو کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ہوائی اڈوں پر لازمی حفاظتی ٹیکوں کے مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاہم پاکستان کی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ نے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او پر الزام عائد کیا کہ وہ طالبان کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عالمی ادارے کی سفارشات کے نتیجے میں پاکستان عالمی سطح پر الگ تھلگ یا تنہا ہو جائے گا اور عام پاکستانیوں کی زندگیاں مشکل تر ہو جائیں گی۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ڈبلیو ایچ او کی انسداد پولیو کے ادارے کی ترجمان سونا باری نے پاکستان کی طرف سے لگائے گئے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ صورتحال حقیقی معنوں میں سنگین ہے اور دنیا بھر میں پولیو کے نئے کیسز میں سے 80 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
ڈی ڈبلیو: پاکستان میں پولیو وائرس کی موجودہ صورتحال کس حد تک سنگین ہے؟
سونا باری: پاکستان دنیا کے اُن تین ممالک میں سے ایک ہے جو کبھی بھی پولیو کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جبکہ دو ممالک افغانستان اور نائجیریا نے پولیو کے پھیلاؤ کی روک تھام میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ 2012ء کے مقابلے میں ان ملکوں میں 2013ء کے دوران پولیو کے کیسز میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔ یہی وہ سال تھا جس میں پولیو کیسز میں تاریخی کمی واقع ہوئی تھی۔ اُدھر اسی سال پاکستان میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں پولیو کے مزید کیسز کی نشاندہی ہوئی اور 2013ء میں دنیا بھر میں سامنے آنے والے پولیو کے 74 کیسز میں سے 59 پاکستان میں درج کیے گئے یعنی 80 فیصد۔
پولیو وائرس ایسے بچوں کو اپنا ہدف بنانے میں مہارت رکھتا ہے جنہیں پولیو کے خلاف ٹیکا نہیں لگا ہوتا۔ پولیو کے شکار 200 افراد میں سے محض ایک کو معذوری کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ وائرس مسافروں کے ساتھ سفر کرتا ہے اور بڑی خاموشی اور تیزی سے حملہ آور ہوتا ہے اس لیے اس کی نگرانی بہت ہی حساس طریقے سے کی جانی چاہیے۔
ڈی ڈبلیو: اس مرض کو دوبارہ سے اس حد تک پیدا ہونے کا موقع کیوں مل جاتا ہے کہ یہ ایک پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کی شکل اختیار کر لے؟
سونا باری: جغرافیائی اعتبار سے پولیو ہمیشہ ایسے مقامات پر حملہ کرتا ہے جہاں بچوں کا ایک ایسا گروپ ہو جو پولیو کے خلاف حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہا ہو۔ ایسا زیادہ تر اُن علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سکیورٹی کی صورتحال سنگین ہو اور اس کے سبب وہاں کی آبادی کی پولیو کےخلاف ٹیکوں تک رسائی نہ ہو۔ پاکستان کے شمال مغربی خطے اور شام کے بحران زدہ یا محصور علاقے پولیو وائرس کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کی ضمن میں سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
ڈی ڈبلیو: پاکستان کے کون سے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اس کی کیا وجہ ہے؟
سونا باری: شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پولیو کیسز مجموعی طور پر پاکستان کے کُل پولیو کیسز کا نصف بنتے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے بچوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں کیونکہ اس علاقے میں جون 2012ء سے انسداد پولیو کی مہم پر پابندی عائد ہے۔
ڈی ڈبلیو: پولیو پاکستان اور پڑوسی ملک افغانستان میں کیوں ایک متعدی بیماری کی حیثیت رکھتا ہے، کیا اس کی وجہ دونوں کے درمیان غیر محفوظ سرحد ہے؟
سونا باری: 2014ء میں افغانستان میں درج ہونے والے پولیو کے تمام کیسز کی وجہ پاکستان میں پیدا ہونے والا وائرس تھا۔ ان دونوں ممالک کے باہمی ثقافتی اور سفری تعلقات اور غیر محفوظ سرحدیں دراصل پولیو وائرس کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا سبب بنتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ انہیں اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ متعلقہ حکومتوں کو اس عالمی ادارے کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا تاہم ڈبلیو ایچ او ان حکومتوں کی امداد میں اپنا کردار ادا کرے گا۔