پاک بھارت تجارت: کیا پاکستان کو فائدہ ہوگا؟
21 ستمبر 2018پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک خط میں اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ پانچ برسوں سے سرد جنگ کی سی کیفیت ہے اور سرحدوں پر آئے دن گولہ باری بھی ہوتی رہتی ہے۔
معاشی امور کے ماہرین کے خیال میں اس کشید ہ صورتِ حال کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تجارت کا حجم صرف دو بلین ڈالرز ہے، جو بہتر تعلقات کی صورت میں 37 بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔
معاشی امور کے ماہرضیاء الدین کے خیال میں پاکستان کئی شعبوں میں تجارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے: ’’بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے، جس سے یقینا ًپاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ سروسز میں پاکستان کے بینکنگ سیکٹر، صنعت میں پاکستان کی ٹیکسٹائل جو بھارت میں پہلے ہی بہت مقبول ہے، زراعت میں چاول، پھلوں میں آم اور یہاں تک کہ ڈرامے اور فلموں میں بھی ہمیں فائدہ ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے تعلقات میں حقیقی معنوں میں بہتری آتی ہے اور اعتماد بھی بحال ہوتا ہے تو ہمیں ٹرانزٹ ٹریڈ میں بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہم بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے راہداری کی سہولت دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ٹول ٹیکس کی مد میں اچھا خاصا پیسہ مل سکتا ہے۔‘‘
لیکن کئی صنعت کاروں کا خیال یہ ہے کہ بھارت سے تجارت پاکستان کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ بزنس کمیونٹی کسی بھی ملک سے تجارت کرنے میں اب محتاط نظر آتی ہے اور اس کی ایک وجہ چین کے ساتھ ہونے والا فری ٹرید معاہدہ ہے، جو کئی ماہرین اور صنعت کاروں کے خیال میں پاکستان کے لیے بہت منفی اثر لے کر آیا ہے۔
معروف صنعت کار احمد چنائے کے خیال میں میڈیسن کے شعبے میں ہم بھارت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہاں دوائیں سستی بھی ہیں اور زیادہ بہتر بھی: ’’لیکن تجارت کے لیے کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے ہمیں اچھی طرح ہر پہلو کا جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستان میں ماہرین اور دوسرے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر ایسے آئٹمز کی فہرست بنانی چاہیے، جس کو درآمد کرنا ضروری ہے اور جس سے مقامی صنعت کو نقصان بھی نہ ہو۔ بغیر سوچ وبچار کے تجارت کرنا پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘‘
صنعت کاروں کی طرح کچھ ماہرینِ معیشت بھی بھار ت کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں ملک کا فائدہ نہیں دیکھتے۔ ان کے خیال میں کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے، پاکستان کے لیے اس سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کے خیال میں نہ صرف پاکستانی صنعت متاثر ہوگی بلکہ زراعت کو بھی نقصان پہنچے گا: ’’پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں کسانوں کو زیادہ سبسڈی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں صنعتی اور زرعی شعبوں کی حالت کوئی اچھی نہیں ہے۔ ہماری صنعتی پیداوار کی گنجائش بھی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی کہ بھارت کی ہے۔ ہم تو جی ایس پی پلس سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پائے تو ان حقائق کے پیشِ نظر ہمیں اپنی مارکیٹ نہیں کھولنی چاہیے۔ اس سے بھارت کو فائدہ ہوگا اور ہمیں نقصان۔‘‘