پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟
19 فروری 2023یہ چھ دہائیاں پہلے کی بات ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ اور اس میں گرنے والے پانچ مختلف دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا تاریخی معاہدہ طے پایا تھا۔ لیکن اب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اس بات پر مصر ہے کہ 1960ء کے اس سندھ طاس معاہدے پر نئے سرے سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
بھارت میں کچھ حلقوں میں اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر علحیدہ ہو جائے۔
اس معاملے پر بڑھتے ہوئے تنازعے کے بعد پاکستان نے نیدر لینڈز کے شہر دی ہیگ میں پرمننٹ کورٹ آف آربیٹریشن (پی سی اے) سے رجوع کیا تھا، لیکن پاکستان کی درخواست پر 27 اور 28 جنوری کو منعقد ہونے والی پہلی دو میٹنگز میں بھارت نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔
بھارت نے اس انکار کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ پی سی اے اس معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا اہل نہیں ہے اور اس کے بجائے یہ مسئلہ ماہرین کی مشاورت سے حل کیا جانا چاہیے۔
پی سی اے کی جانب سے اس معاملے میں بطور ثالث اس کی اہلیت پر فیصلہ جون میں متوقع ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
سندھ طاس معاہدے میں پاکستان اور بھارت نے دریائے سندھ اور اس میں گرنے والے پانچ دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر اتفاق کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ’انڈس بیسن‘ کے تین مشرقی دریا، بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کا حق ہے اور مغربی دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ پر پاکستان کا۔ اس کے علاوہ بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین مغربی دریاؤں کا 20 فیصد پانی آب پاشی، ٹرانسپورٹ اور بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
آج یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سالوں کی کشیدگی اور تین جنگوں کے باوجود قائم ہے۔
کیا بھارت کو سندھ طاس معاہدے سے علحیدہ ہو جانا چاہیے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل جاتا ہے تو اس پر دوبارہ مذاکرات کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
سیاسی تجزیہ کار ریاض احمد کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم مسائل اور بھارت اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا بڑھتے فقدان کے تناظر میں ان کا خیال ہے کہ اس معاہدے کا دوبارہ خالصتاﹰ پیشہ ورانہ جائزہ لینا اب ممکن نہیں۔
ڈی ڈبلیو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس معاہدے پر اب تک ہونے والی پیش رفت کو نظر انداز کر کہ نئے سرے سے مذاکرات کا آغاز کرنے کے بجائے دونوں ممالک کو موجودہ معاہدے پر ہی مزید پیش رفت کرنی چاہیے۔
'آبی سفارتکاری کی ایک اعلی مثال'
اگر بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علحیدہ ہو جاتا ہے تو اس کا یہ اقدام پاکستانی عوام میں ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے اور بھارت پاکستان انڈس بیسن کے تین مغربی دریاؤں کے پانی کا بہاؤ روکتا ہے تو اس سے پاکستان کا تقریباﹰ 62 فیصد زرعی علاقہ متاثر ہوگا۔
ریاض احمد کہتے ہیں کہ اس معاملے میں افسران کو منصفانہ اور معقول رویہ اپنانا چاہیے۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ تین جنگوں اور چھ دہائیوں کے طویل عرصے بعد بھی یہ معاہدہ وقت کی کسوٹی پر کھڑا ہوا ہے، "تو چاہے جو بھی تقاضے ہوں، میرا نہیں خیال کہ اس میں (بلا ضرورت) مداخلت کرنا اچھا ہوگا۔ یہ آبی سفارتکاری کی ایک اعلی مثال ہے۔"
ریاض احمد نے اس معاہدے کو قائم رکھنے اور دونوں ممالک میں انڈس کمیشن کے ممبران کے کردار کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، "یہاں کرداروں اور ذمے داریوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ خود کو اپنے ملکوں کے مفادات کے نگہبان کے طور پر دیکھنے کے بجائے (انڈس کمیشن کے ماتحت) دونوں کمشنروں کو اپنے آپ کو اپنے ممالک کا سفیر تصور کرنا چاہے تا کہ دونوں ممالک کے بیچ روابط اور تعاون کو بڑھایا جا سکے۔"
بھارتی سیاست دان کیا کہتے ہیں؟
بھارت میں سندھ طاس معاہدے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اس میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والی پریا سیٹھی نے اس حوالے سے کہا کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ غور و فکر کرنی چاہیے۔ پاکستان پر بھارت کے لیے مسلسل مسائل پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا، "ہم پاکستان کو اپنا پانی کیوں دیں؟"
پریا سیٹھی نے کہا، "ہم بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیم اور آبپاشی کے لیے کنال تعمیر کریں گے تا کہ یہ یقینی بنائیں کے پاکستان کی طرف پانی کا بہاؤ رک جائے۔ ہم رکاوٹیں تعمیر کریں گے تا کہ ہمارا پانی جموں اور کشمیر اور شمالی بھارتی ریاستوں کے کسان استعمال کریں، نہ کہ پاکستان۔"
پانی کا مسئلہ، عالمی بینک کردار ادا کرے، قریشی
اسی طرح کا بیان مودی نے 26 ستمبر 2016ء بھارتی افسران سے ملاقات کے دوران دیا تھا۔ کشمیر کے علاقے اڑی میں ایک حملے میں 19 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے ایک ہفتے بعد سندھ طاس معاہدے سے متعلق ان کا کہنا تھا، "خون اور پانی بیک وقت ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔"
بھارت کا پاکستان پر الزام ہے کہ وہ اس کے زیر انتظام کشمیر میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے لیکن پاکستان نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
کشمیری اور پاکستانی سندھ طاس معاہدے سے ناخوش
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی لوگوں کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ان کے لیے غیر منصفانہ ہے اور اس میں ان کے ساتھ تفریق کی گئی ہے۔ اس خطے کے باسیوں کی شکایت ہے کہ چونکہ اس معاہدے کی وجہ سے انڈس بیسن کے تین مغربی دریاؤں کا پانی ذخیرہ کرنے پر پابندیاں عائد کی گئیں، اس لیے ان کے علاقے کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پر منفی اثر ہوا اور اس سے خطے کی معیشت متاثر ہوئی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 20,000 میگا واٹ تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو کہ وہاں کی اقتصادی ترقی میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن فی الوقت وہاں صرف 3,263 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف پانی کی کمی سے نبر آزما پاکستان کے لوگوں کا بھی ماننا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ان کے مفادات کا مکمل طور پر تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
یہ اعتراضات بنیادی طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انڈس بیسن کے دریاؤں پر بنائے گئے بجلی کی منصوبوں کے ڈیزائن، تعمیر اور آپریشن سے متعلق ابہام کی وجہ سے ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جموں کشمیر پاور ڈویلپمنٹ کاپوریشن کے ایک اعلی افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دریائے جہلم کے کنارے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بڑا ریزروائر تعمیر کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کی تعمیر سے وادی کشمیر کے ڈوبنے کا بھی خدشہ ہے۔
کشمیر کے محکمہ آبپاشی کے ایک سابق افسر کا کہنا ہے کہ بھارت کو جہلم کی معاون ندیوں پر چھوٹے ڈیم بنانے چاہییں، ممکنہ طور پر جھرنوں میں، جس کی اجازت سندھ طاس معاہدے میں بھی دی گئی ہے۔
دریائے جہلم میں پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے گزرتا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے تحت اس پر پاکستان کا کنٹرول ہے۔
کیا بھارت پاکستان میں دریاؤں کا بہاؤ روک سکتا ہے؟
پاکستان میں انڈس بیس کے آبپاشی کے نظام کا 80 فیصد سے زائد پانی (117 بلین کیوبک میٹر) جہلم سمیت انڈس بیسمکے مغربی رریاؤں سے آتا ہے۔ پاکستان کی طرف ان کا بہاؤ دو طرح سے روکا جا سکتا ہے، کہ یا تو ان کے پانی کو وہاں پہنچنے سے پہلے ذخیرہ کر لیا جائے یا پھر ان کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا جائے۔
لیکن ایک ماہر کے مطابق 117 بلین کیوبک میٹر پانی ہر سال 120,000 اسکویئر کلو میٹر کے رقبے کو ایک میٹر کی کی اونچائی تک ڈبونے کے لیے کافی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پانی کی یہ مقدار ایک سال میں پورے کشمیر کو سات میٹر کی اہنچائی تک ڈبونے کے لیے بھی کافی ہے اور اس کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھارت کو 260.5 میٹر اونچے اور 592 میٹر طویل تہری ڈیم جتینے 30 ڈیموں کی ضرورت ہوگی، جو کہ ناممکن ہے۔
سمان لطیف (م ا/ ر ب)