پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور کیا ہے؟
13 نومبر 2016تین ہزار کلومیٹر طویل اس منصوبے کے تحت مستقبل میں گوادر اور سنکیانگ کے درمیان نئی شاہراہوں اور ریل رابطوں کی تعمیر کے علاوہ گیس اور تیل کی پائپ لائنیں بھی بچھائی جائیں گی۔
گوادر: پاکستان، چین تجارتی راستے کا باقاعدہ آغاز ہو گیا
پہلا تجارتی قافلہ گوادر پہنچ گیا
چینی صوبے سنکیانگ اور پاکستانی کمپنیوں کے مابین نئے معاہدے
ابتدا میں اس منصوبے پر اٹھنے والی لاگت کا تخمینہ 46 بلین ڈالر کے برابر لگایا گیا ہے اور یہ پروجیکٹ کئی مرحلوں میں 2030ء تک مکمل ہو گا۔ اس منصوبے کے لیے زیادہ تر رقوم چینی سرمایہ کاری کی صورت میں مہیا کی جائیں گی لیکن ان مالی وسائل میں وہ نرم قرضے بھی شامل ہوں گے، جو بیجنگ حکومت اسلام آباد کو فراہم کرے گی۔
اس عظیم تر اقتصادی ترقیاتی منصوبے کے لیے پاکستان سڑکوں کی تعمیر، بجلی کی پیداوار کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری خطوں کے لیے زمین مہیا کرے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد حکومت اس منصوبے کے لیے مالی وسائل بھی فراہم کرے گی، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان رقوم کی مالیت کتنی ہو گی۔
اس اکنامک کوریڈور کے کئی سالہ منصوبے پر عمل درآمد کے دوران پاکستان اپنے ہاں کام کرنے والے چینی کارکنوں اور ماہرین کی حفاظت کے لیے سکیورٹی فرائض انجام دینے والے اپنے خصوصی دستوں کی تعداد بھی بڑھا کر قریب 10 ہزار کر دے گا۔
اس پروجیکٹ کے تحت قریب 36 بلین ڈالر کے برابر رقوم بجلی کی پیداوار کے متعدد منصوبوں پر خرچ کی جائیں گی کیونکہ پاکستان کو کئی برسوں سے اپنے ہاں بجلی کی پیداوار میں کمی اور طلب میں مسلسل اضافے کا سامنا ہے۔
اس کے علاوہ چین کی طرف سے بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع گوادر کی بندرگاہ کو جدید تر بھی بنایا جائے گا، جس کے بعد نہ صرف فاصلے کم ہو جائیں گے بلکہ یورپ کے ساتھ تجارت پر اٹھنے والی لاگت بھی واضح طور پر کم ہو جائے گی۔
اسی منصوبے کے تحت پاکستانی حکومت کا ارادہ ہے کہ اس کوریڈور کے ساتھ ساتھ کئی ایسے صنعتی پارک اور کاروباری ترقیاتی خطے بھی قائم کیے جائیں گے، جن سے نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ وہاں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی مزید پرکشش بنایا جائے گا۔