پاک چین فرینڈشپ ہائی وے کیا ’ون وے روڈ‘ ہے؟
2 اگست 2017چین کے لیے یہ دو طرفہ شاہراہ دونوں ممالک کے درمیان پھلتی پھولتی شراکت داری کی علامت ہے، جس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ تاہم چین کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر بعض تاجروں کا موقف ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر محض چین کے مفاد میں کی گئی ہے۔
شاہراہ قراقرم کے قریب چینی صوبہ سنکیانگ کے شہر تاشکرگن میں کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجر مراد شاہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’چین کہتا ہے کہ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے۔ لیکن وہ دل سے ایسا نہیں سمجھتا۔ سی پیک منصوبوں میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے صرف چین کی اپنی اقتصادی نشو و نما ہو گی۔‘‘
چین کے مغربی شہر کاشغر سے پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ تک تعمیر ہونے والی شاہراہ چین اور پاکستان کے درمیان اربوں ڈالر کے ’ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ‘ کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں پرانی سلک روڈ کی بحالی اور چینی کمپنیوں کو پوری دنیا میں نئی کمپنیوں سے جوڑنا شامل ہے۔
دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند ہے تاہم اعداد و شمار ذرا مختلف کہانی بتاتے ہیں۔ پاکستان کی چین کو برآمدات سن 2016 کے نصف تک آٹھ فیصد کم ہو چکی تھیں جبکہ درآمدات میں انتیس فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔
واشنگٹن میں سینٹرل دفاعی اور انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی ادارے سے منسلک ماہر جوناتھن ہِل مین کا کہنا ہے، ’’پاکستان کی اپنی برآمدات کے حوالے سے بہت سی امیدیں اور خواب ہیں۔ لیکن اگر آپ چین کے تناظر میں بات کریں، تو آپ کیا برآمد کرنے جا رہے ہیں؟‘‘
سنکیانگ میں پاکستانی کاروباری افراد سی پیک سے پاکستان کو کچھ زیادہ حاصل ہوتا نہیں دیکھتے۔ ان پاکستانی تاجروں کو چین میں سلامتی کے نظام اور پل پل بدلتے کسٹمز انتظامات سے بھی شکایت ہے۔
کاشغر میں ایک پاکستانی تاجر محمد نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ چین سے کچھ بھی لاتے ہیں، تو کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم پاکستان سے درآمد شدہ اشیاء پر محصول کی بابت واضح طور پر نہیں بتایا جاتا۔ اگر آج یہ پانچ فیصد ہے تو کل بیس فیصد ہو سکتا ہے۔ کبھی تو یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کی اجازت ہی نہیں۔‘‘
اس پاکستانی تاجر کو امید ہے کہ سی پیک سے زندگی میں بہتری آئے گی تاہم اس کی رائے میں سخت سکیورٹی اس بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنی رہے گی۔ انہوں نے کہا، ’’میں ابھی مزید قریب تین سال یہاں رہ کر حالات دیکھوں گا۔ لیکن حالات بدلنے کا لامحدود انتظار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے لوگ تو پہلے ہی واپس جا چکے ہیں۔‘‘