پاکستان: اس طرح معذور بچوں کی پیدائش سے بچا جا سکتا ہے
14 اپریل 2018اس ڈیٹا بیس کو پاکستان جنیٹک میوٹیشن ڈیٹابیس کا نا م دیا گیا ہے، جس میں 130علامتی اور غیر علامتی جسمانی و ذہنی جینیاتی معذوریوں اور بیماریوں پر مبنی ایک ہزار اقسام کے ڈی این ایز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
اس جینیاتی میوٹیشن ڈیٹابیس پر تحقیق کرنے اور اس کو قائم کرنے کے حوالے سے سات سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم نے کام کیا، جس کی سربراہی ڈاکٹر سعداللہ خان وزیر نے کی، جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں واقع کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بائیوٹیکنالوجی اینڈ جنیٹک انجنئیرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
ڈیٹابیس کو قائم کرنے کے سلسلے میں کئی برسوں کی تحقیق پر ان پاکستانی جینیاتی سسائنسدانوں کی جانب سے ایک جامع تحقیقی مقالہ ایک عالمی اہمیت کے حامل جریدے یورپین جرنل آف میڈیکل میں شائع ہوا ہے، جس میں انہوں اس ڈیٹابیس کے مختلف پہلوؤں سمیت اس کی اہمیت، فوائد اور اس کے استعمال کے طریقوں پر تفصیلی بات کی ہے۔
ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹا بیس کے باعث ڈاکٹر اور تحقیق دان لوگوں یا شادی شدہ جوڑوں کی کاؤنسلنگ اور ڈی این ایز کے لیبارٹری ٹیسٹ کرتے ہوئے ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں تاکہ ممکنہ طور پر معذور بچوں کو پیدائش کو روکا جا سکے۔
اس جینیاتی تحقیقی ماہرین کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر سعداللہ خان وزیر نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈیٹابیس میں اس بات پر تحقیق کر کے معلومات ریکارڈ کی گئی ہیں کہ نوزائیدہ بچوں میں کون سی پیدائشی جینیاتی معذوری یا بیماری کس جینیاتی بناوٹی بگاڑ کی وجہ سے واقع ہوئی اور اس کا مخصوص اور موثر علاج کون سا ہو سکتا ہے؟
ماہر ڈاکٹر اپنے مریضوں کے ڈی این ایز کے لیباریٹری ٹیسٹوں کے بعد ان کا موازنہ اس ڈیٹا بیس میں موجود معلومات سے کر سکیں گے۔ ڈیٹابیس میں اکٹھے کیے گئے بگاڑ شدہ جین، جو مختلف پیدائشی معذوریوں کے وجہ ہیں، سے میچنگ کرنے کے بعد متاثرہ افراد کا موزوں ترین علاج تجویز کر کے معذور بچوں کی مزید پیدائش کو روکا جا سکے گا۔
اس تحقیق میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر سعداللہ خان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 62 فیصد شادیاں کزن میریجز کی صورت میں ہوتی ہیں اور پیدائشی طور پر جینیاتی معذوریوں یا بیماریوں سے متاثرہ لوگوں کی تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے جینیاتی امراض مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں، جہاں پر کزن میریجز سب سے بڑی اور اہم وجہ ہیں۔ تاہم وہاں پر ایسی شادیوں کے واقعات کی شرح 40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے چائلڈ فزیشن پروفیسر ڈاکٹر حیدر شیرازی کا کہنا ہے کہ کزن میریجز کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی امراض دس گُنا زیادہ دیکھے گئے ہیں، جو ایک تشویش ناک بات ہے، ’’اس کو روکنے کے لیے ایسی شادیوں کی حوصلہ شکنی کر کے انہیں کم کرنا ناگزیر ہے۔‘‘
فرسٹ کزنز کی شادیاں، بچوں میں ممکنہ جینیاتی بیماریوں کا سبب
ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر خاندان آپس میں شادیاں کر رہے ہیں، جس کے باعث لوگوں میں مختلف جسمانی بیماریاں رونما ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں میں اعضاء کا پیدائشی بگاڑ، بچوں کا مردہ پیدا ہونا، پیدائشی طور پر بچوں میں یا عمر کی کسی بھی حصے میں ذیابیطس، الزائمر، مرگی، کینسر، موٹاپن،گنجاپن، دل، بلڈ پریشر، نابیناپن، گونگاپن، بانجھ پن، سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت میں پیدائشی کمی یا اس سے مکمل طور پر محرومی جیسی بیماریاں شامل ہیں۔
تاہم ڈاکٹر سعداللہ خان کا کہنا ہے کہ اب اس ڈیٹابیس کو آن لائن کیا گیا ہے اور اس تک جینیاتی ماہرین، ڈاکٹروں اور خاندانی طور پر پیدائشی جینیاتی معذوریوں کی اقسام اور ان کو روکنے کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیق دانوں کی رسائی بغیر کسی معاوضے کے مہیا کر دی گئی ہے تاکہ وہ جینیاتی طور پر معذور بچوں کی پیدائش کو روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں قائم انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جنیٹک انجنیئرنگ کے سربراہ ڈاکٹر شاہد منصور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قومی سطح پر اپنی نوعیت کا یہ پہلا جنیٹک میوٹیشن ڈیٹابیس ملک کی جینیاتی سائنس کے شعبے میں ہونے والی ایک اہم پیش رفت ہے۔
ڈوئچے ویلے سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس ڈیٹابیس تک جینیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹروں کی بلا روک آن لائن رسائی کے بدولت ملکی سطح پر لوگوں میں جینیاتی امراض کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی روک تھام کے حوالے سے بڑی حد تک مدد مل سکے گی۔
تاہم جینیاتی سائنس کے ماہر ڈاکٹر شاہد منصور نے اس بات پر زور دیا کہ شادی سے پہلے ڈی این ایز کے لیباریٹری ٹیسٹ کرانے کی حوصلہ افزائی اور اس کے بارے میں عوامی آگاہی نوزائیدہ بچوں میں جینیاتی امراض یا بیماریوں کو روکنے اور صحت مند نسل پیدا کرنے کی طرف پہلا اہم اقدام ثابت ہو سکتے ہیں۔