پاکستان: اسمگلروں کے ہاتھوں پنگولین کی بقا خطرے میں
20 جون 2019یہ ایک اتوار کی شام تھی، جب پینتالیس سالہ مسعود اختر اپنے خاندان کے ہمراہ صوبہ پنجاب کے علاقے واہ کینٹ میں تھے۔ وہاں انہوں نے ایک عجیب و غریب جاندار کو دیکھا، جو خوف کی وجہ سے خود کو اپنے چھلکے نما خول میں لپیٹے ہوئے تھا۔ وہاں موجود کچھ لوگوں نے تو کہا کہ یہ ایک ڈائناسور کی طرح ہے۔ مسعود اختر بتاتے ہیں، ''میں اپنی زندگی میں تین فٹ لمبی ایسی عجیب و غریب مخلوق پہلی مرتبہ دیکھ کر حیران تھا۔‘‘
تاہم یہ کوئی عجیب و غریب مخلوق یا ڈائناسور نہیں بلکہ ایک پنگولین تھا، جسے فلس دار مور خور بھی کہا جاتا ہے اور اس کا تعلق چیونٹی خور جانوروں کی نسل سے ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ( ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق انڈین پینگولین کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل کیے جانے والے جانوروں میں ہوتا ہے۔ انہیں ان کی مخصوص کھال اور گوشت کے لیے شکار کیا جاتا ہے اور چین دنیا میں اس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ چین میں اس کی طلب کے ایک خاص حصے کو پاکستانی شکاری اور اسمگلر پورا کر رہے ہیں۔
پاکستان میں تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے گروپ معدوم ہو جانے کے خطرے سے دوچار انڈین پینگولین کے غیرقانونی شکار کے خلاف سرگرم ہیں۔ سن دو ہزار سترہ میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ایک منصوبے کا آغاز بھی کیا تھا، جس کا مقصد مختلف صوبوں میں ان کے تحفظ کو ممکن بنانا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق سن دو ہزار تیرہ سے سن دو ہزار اٹھارہ کے درمیان اس کی آبادی میں اسی فیصد کمی ہوئی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے محمد وسیم کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس جانور کا کاروبار کرنے والے ڈیلر بڑے شہروں میں بیٹھے ہیں اور مقامی شکاری کیش کے عوض انہیں پینگولین فروخت کر دیتے ہیں۔ ایک دیہاتی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتانا کہ تھا کہ ایک مرتبہ اس نے دیکھا کہ لوگ ایک پینگولین کو خطرناک جانور سمجھ کر مار رہے ہیں لیکن وہ انہیں بتا نہیں سکا کہ یہ کس قدر قیمتی جانور ہے۔
پاکستان میں ان جانوروں کا غیر قانونی شکار ہی اس کی غیر قانونی تجارت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کئی مڈل مین کراچی میں ہیں اور وہ اس جانور کے حصے چین اسمگل کرتے ہیں۔
چین میں گوشت اور ادویات کی طلب
پینگولین کی جلد کو چین میں روایتی ادویات سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے گوشت کو بھی انتہائی مہنگا اور منفرد کھانا تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی بلیک مارکیٹ میں ایسے کوئی بھی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکے کہ سالانہ بنیادوں پر کتنا گوشت چین اسمگل کیا جاتا ہے۔
چین میں تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق وہاں پینگولین تقریبا ختم ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار سے ایشین پینگولینز کی چار اقسام کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی عائد ہے جبکہ سن دو ہزار سترہ میں اس جانور کی تمام آٹھوں اقسام کی تجارت پر یہ پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
چائنا بائیوڈیورسٹی کنزرویشن اینڈ گرین ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے مطابق چین میں ایسی دو سو دوا ساز کمپنیاں ہیں، جو روایتی ادویات سازی میں پینگولین کی جلد کو استعمال کرتی ہیں۔ چین میں ہر سال دوا ساز کمپنیوں کو انیس ٹن پینگولین کی جلد استعمال کرنے کی اجازت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ تقریبا تہتر ہزار پینگولین بنتے ہیں۔ سن دو ہزار سترہ میں چینی کسٹم حکام نے ریکارڈ تیرہ ٹن پینگولین کی جلد کو غیر قانونی طریقے سے درآمد کرتے ہوئے پکڑا تھا۔
پینگولین کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن ریاض حسین کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''شکاری انتہائی بے دردی سے ان کو مارنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ پاکستان میں سی پیک کے آغاز کے بعد شروع ہوا ہے۔‘‘
ہارون جنجوعہ / ا ا / ب ج