'پاکستان، افغانستان کی مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں‘
20 فروری 2017جنرل باجوہ نے افغان انتظامیہ کی اس پیشکش کا بھی خیر مقدم کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کا حصہ بنے گی۔ گزشتہ جمعے کے روز پاکستانی فوج نے پاک افغان سرحد کے قریب شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج نے کالعدم تنظیم جماعت الاحرار کے ایک تربیتی کیمپ پر حملہ کیا تھا، جس نے تیرہ فروری کو لاہور اور پندرہ فروری کو مہمند ایجنسی میں خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ سیہون شریف میں ہوئے دہشت گردی کے بڑے واقعے اور دیگر دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کر دیا تھا۔
پشاور میں انگریزی روزنامہ دی نیوز کے ایڈیٹر رحیم اللہ یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ پاک افغان سرحد بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سن 2014 میں پشاور کے ایک اسکول پر حملے کےبعد بھی یہ سرحد بند کر دی گئی تھی اور پاکستان نے افغانستان کو شواہد بھی پیش کیے تھے۔ اس وقت کے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان یہ ثبوت لے کر کابل گئے تھے۔ رحیم اللہ یوسف زئی تاہم اس بات کو خوش آئند قرار دیتے ہیں کہ دونوں ممالک مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے پر اتفاق کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغانستان کو پاکستان کے تحفظات دور کرنے چاہییں اور پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان کے تحفظات اور خدشات دور کرے۔ پاکستان اور افغانستان آپس میں بات چیت کا سلسلہ شروع کریں اور پھر پاکستان اور دیگر ممالک کوشش کریں کہ افغان طالبان اور کابل حکومت کےدرمیان مذاکرات عمل میں آئیں۔‘‘
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے وابستہ صحافی اعزاز سید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاک افغان سرحد عملی طور پر بند کرنا بہت مشکل ہے۔ ہزاروں افراد کاروبار، رشتہ داروں سے ملنے اور دیگر کاموں سے سرحد پار آنا جانا چاہتے ہیں۔ سرحد بند کرنے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘ اعزاز سید کا مزید کہنا تھا، ’’آرمی چیف باجوہ دباؤ کا شکار ہیں۔ آئی ایس پی آر نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ساکھ کو بہت بہتر بنا دیا تھا۔ موجودہ آرمی چیف پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ان کا موازنہ راحیل شریف سے کیا جا رہا ہے۔ یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد سخت بیانات دے رہے ہیں۔‘‘
اعزاز سید کی رائے میں جب تک پولیس کو خود مختار نہیں بنایا جاتا، سول ملٹری تعلقات کو بہتر نہیں بنایا جاتا اور انٹیلیجنس نظام کو بہتر نہیں کیا جاتا، تب تک پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اعزاز سید کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے کئی نکات براہ راست پولیس سے وابستہ ہیں لیکن نہ تو پولیس کو ٹریننگ دی گئی ہے اور نہ ہی پولیس کو خود مختار بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس ہتھیار سے دہشت گردی سے لڑنا ہے، اسے ہی زنگ لگا ہوا ہے تو یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ تھانوں میں رجسٹر ہوتا ہے، پھر کیس انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جاتا ہے اور آخر تک پولیس اس کیس کو ہینڈل کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پولیس کی تربیت کی جائے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردانہ واقعات کے تناظر میں خوست یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم کے پروفیسر حضرت بہار نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’دونوں ممالک کو دہشت گردی کی وجوہات جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دونوں ممالک کے سربراہان کو مل کر بیٹھنا چاہیے اور مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ پاکستان الزام عائد کرتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں ہے اور افغانستان الزام عائد کرتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے دہشت گرد افغانستان میں حملے کر رہے ہیں۔ جب تک دونوں ممالک سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش نہیں کریں گے، تب تک اس خطے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘
کابل میں ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر محمد شفیقی نے بھی اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کوبتایا کہ دونوں ممالک کو الزامات کے بجائے ایک دوسرے کو ثبوت فراہم کرنے چاہییں اور مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔