پاکستان الیکشن: ’نک دے کوکے‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے؟
9 جنوری 2024ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے گلوکار ملکو کے قریبی دوست اور مینیجر احسن رضا نے بتایا کہ اس گلوکار نے کسی بھی میڈیا ادارے سے بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے ڈی ڈبلیو کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ گلوکار ملکو نے بنیادی طور پر یہ گیت کسی سیاسی نیت سے نہیں گایا تھا لیکن جب اس کے پہلے حصے کا ایک تیس سیکنڈ کا ویڈیو کلپ ریلیز کیا گیا، تو صرف تین دنوں میں ہی اس کو پندرہ ملین سے زائد افراد نے دیکھا تھا۔
''جب ہم نے یہ گیت ریلیز کیا، تو اسے سننے والوں کی تعداد نے بہت سے ریکارڈ توڑ دیے اور یہ یو ٹیوب کی گلوبل ریٹنگ اور ایشیا ریٹنگ میں نمایاں طور پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ اس پر ہمیں اندازہ ہوا کہ لوگ یہی سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے اس حوالے سے ''نک دا کوکا‘‘ گیت کا مکھڑا استعمال کر کے دو اور ایسے گیت ریلیز کر دیے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف نے کہا کہ عمران خان کی انتخابی مہم کے لیے اگر چند اور ایسے گیت سامنے آ گئے، تو اندازہ لگا لیں کہ منظر نامہ کیا ہو گا۔‘‘
احسن رضا کے مطابق اس گیت کی صرف یو ٹیوب پر ہی نہیں بلکہ سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر بھی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ ان کے بقول اس گانے کی غیر معمولی مقبولیت پر یو ٹیوب نے گلوکار ملکو کے لیے تحائف بھی بھیجے۔
پنجابی گیتوں میں ٹپے کہنے کا رواج بہت پرانا ہے اور ''نک دا کوکا‘‘ نامی اصل ٹپہ اعجاز سیال نامی شاعر نے گایا تھا۔ پھر گلوکار ملکو نے اس کے ساتھ ہم آواز ہو کر اڈیالہ جیل، قیدی نمبر چار سو چار اور بنی گالہ جیسے الفاظ استعمال کر کے عمران خان کے لیے دعائیہ کلمات پر مبنی تین گانے ریلیز کر دیے۔
انہوں نے کہا، ''ہم خود بھی حیرت زدہ ہیں کہ اس گیت نے ملکو کے ایک اور بہت مقبول گیت ''رل تے گئے آں، پر چس بڑی آئی اے‘‘ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پاکستانی صحافی عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ گھٹن کے ماحول میں سامنے آنے والا یہ گیت مزاحمتی ابلاغ کی ایک دلچسپ کوشش ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے لیے مقبول گیت ''ہم کوئی غلام تو نہیں‘‘ لکھنے والے نوجوان شاعر عاصم تنہا کو چند دن پہلے بھکر کے علاقے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کی وجہ ابتدائی طور پر ذاتی نوعیت کی اور گھریلو عناد بتائی گئی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف کی برطانیہ سے پاکستان واپسی سے پہلے مریم نواز نے ملکو سے رابطہ کر کے نواز شریف کے لیے خصوصی گیت (میاں ساڈا آیا اے، تے چس بڑی آئی اے) لکھوایا تھا، ملکو نے استحکام پاکستان پارٹی، فردوس عاشق اعوان اور شیخ رشید کے لیے بھی سیاسی گیت لکھے لیکن ان میں سے کسی کو بھی اس طرح کی مقبولیت نہ مل سکی۔
گلوکار ملکو کی ٹیم کا کہنا ہے کہ عمران خان کے لیے لکھا گیا گیت کسی باقاعدہ 'سپانسرڈ‘ معاہدے کا نتیجہ نہیں تھا اور وہ فی الحال ایسا مزید کوئی گیت ریلیز کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
ایک ایسے وقت پر جب ملک میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کا میڈیا میں نام لینے پر بھی غیر اعلانیہ پابندی ہے، ملکو کا عمران خان کی حوالے سے لکھا گیا گیت شادی کی تقریبات کا اہم حصہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ شادی کی تقریبات میں عام طور پر شرکاء ایک گیت صرف ایک مرتبہ ہی سنتے ہیں، لیکن یہ گیت شادی کی بہت سی تقریبات میں بار بار اصرار کے باعث کم از کم پانچ چھ مرتبہ ضرور سنا جاتا ہے۔
پاکستان کے معروف صحافی، ادیب اور شاعر محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں مزاحمتی شاعری پچھلے کئی عشروں سے جاری ہے کیونکہ شاعر اور ادیب حساس لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے ملک کی صورت حال سے لاتعلق بھلا کیسے رہ سکتے ہیں۔
ان کے مطابق پچھلے چند ہفتوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے سبھی ادبی میلوں میں مزاحمتی شاعری کے نت نئے رنگ دیکھنے میں آتے رہے ہیں، ''ماضی میں جبر کے ماحول میں یہ سوشل میڈیا نہیں ہوتا تھا، جو ساری صحافتی پابندیوں کے باوجود آج مظلوم طبقوں کی آواز بنا ہوا ہے۔‘‘
نواز شریف کی وطن واپسی سے پہلے محمود شام نے لکھا تھا:
سرمایہ و شمشیر کی یک جائی ہوئی ہے
افکار و نظریات کی پسپائی ہوئی ہے
قانون کی پیشانی سے بہتا ہے پسینہ
آئین کی ہر سطر شرمائی ہوئی ہے
یہ ملک یہ ایوان رئیسوں کے ٹھکانے
غریبوں کی کس عہد میں شنوائی ہوئی ہے
محفوظ خزانوں پہ ہے اک کپکپی طاری
جب سے تیرے آنے کی خبر آئی ہوئی ہے
اب دیکھنا ہے کس کی ہدایت پر چلے گا
اچکن کسی روبوٹ کو پہنائی ہوئی ہے
اسی طرح اردو کے شاعر ناصر بشیر کے کلام سے چند اشعار اس طرح سے ہیں:
نگرانی پہ جو مامور کیے جاتے ہیں
نام ان کے کہاں منظور کیے جاتے ہیں
عمر بھر رہتے ہیں گوشہ گمنامی میں
کس کے کہنے پہ یہ مشہور کیے جاتے ہیں
نگرانوں پہ بھی ہوتا ہے کوئی تو نگران
کیا نظر آئیں جو مستور کیے جاتے ہیں
تخت پر جن کو بٹھاتے ہیں بٹھانے والے
زندگی کو شب عاشور کیے جاتے ہیں
پاکستان کے ممتاز ادیب اور نقاد حمید شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مزاحمتی ادب آج کے دور میں بھی لکھا جا رہا ہے۔ صرف اسلام آباد کو ہی دیکھ لیں، تو افتخار عارف، احسان اکبر اور کشور ناہید سمیت بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جتنی سختی کا سامنا ٹی وی چینلز کو ہے، اتنی سختی کا سامنا ادیبوں کو نہیں ہے۔
حمید شاہد نے کہا، ''اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بالادست طبقے پڑھنے پڑھانے کے زیادہ شوقین نہیں ہوتے۔ ان کی توجہ ٹی وی پر رہتی ہے۔ محمد حنیف نے انگریزی میں ناول لکھا، تو کسی نے نوٹس نہ لیا۔ وہی ناول اردو میں شائع ہوا، تو اس پر ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔‘‘