پاکستان: انتخابات قریب، لیکن گہما گہمی دور
9 دسمبر 2023سابق وزیر اعظم عمران خان کے پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم تو ممکنہ طور پر ماند پڑے گی ہی لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم الطاف پر غیر اعلانیہ پابندی کے سبب بھی انتخابی مہم میں بہت زیادہ جوش و ولولہ کی توقع نہیں ہے۔
کیا پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ممکن ہوسکیں گے؟
پری پول دھاندلی کے الزامات: الیکشن کی شفافیت پر انگلیاں اٹھنے لگیں؟
کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ انتخابات کے حوالے سے بے یقینی اور امن و امان کی صورتحال ان عوامل میں شامل ہیں جن کی وجہ سے انتخابی مہم نے ابھی تک زور نہیں پکڑا۔
کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ امیدواروں کا انتخاب کر رہی ہیں اور جیسے ہی وہ مرحلہ پورا ہو جائے گا وہ بھرپور طریقے سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیں گی۔ تاہم بعض دیگر کے مطابق انتخابات کے شیڈول سے پہلے مہم میں گہما گہمی نہیں آئے گی۔
کے پی، بلوچستان میں مہم اور سکیورٹی چیلنچز
پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال مغربی اور مغربی صوبوں میں انتخابی مہم کو سخت سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پختونخوا میں جمیعت علماء اسلام کو قبائلی اضلاع خصوصاﹰ باجوڑ میں ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے جبکہ مکران ڈویژن اور دوسرے علاقوں میں بلوچ عسکریت پسند نہ صرف ممکنہ طور پر وفاق پسند جماعتوں کی انتخابی مہم کو ٹارگٹ کرینگی بلکہ وہ قوم پرست تنظیموں کو بھی ہدف بنائیں گی۔‘‘
احسان اللہ ٹیپو کا خیال ہے کہ داعش خیبر پختونخواکے کچھ علاقوں میں بہت زیادہ سرگرم ہوگی: ''اور وہ ممکنہ طور پر ایسی مذہبی سیاسی جماعتوں کی مخالفت بھی کرے گی، جو جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہیں۔‘‘
غیر یقینی صورت حال برقرار
ملک کی سیاسی افق پر اس وقت صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مختلف جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں حال ہی میں کچھ جلسوں سے خطاب کیا ہے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بلوچستان میں بھی ڈیرے جمائے۔ پارٹی کی ان سرگرمیوں کے باوجود کچھ پارٹی رہنما سوچتے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اب بھی ابہام ہے۔
سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے ابھی تک انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں کیونکہ پہلے کہا گیا تھا کہ انتخابی شیڈول کا پہلی دسمبر کو اعلان کر دیا جائے گا۔ اب 15 دسمبر کا کہا گیا ہے۔ تو بنیادی طور پر یہ غیر یقینی صورتحال ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں نے ابھی تک بھرپور طریقے سے انتخابی مہم شروع نہیں کی ہے۔‘‘
’ہمیں انتخابات کے انعقاد پر یقین ہے‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے برعکس مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ انتخابات فروری میں ہی ہوں گے اور یہ کہ اس کی تیاری اس حوالے سے چل رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت ہمارا پارلیمانی بورڈ امیدواروں کے انٹرویو کر رہا ہے۔ ایک ایک حلقے سے دس دس، بارہ بارہ امیدوار ہیں جن کے انٹرویو کرنے ہیں۔ جیسے ہی امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دی جاتی ہے ہم بھرپور طریقے سے انتخابی مہم میں شرکت کریں گے۔‘‘
اقبال ظفر جھگڑا کا مزید کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے: ''انتخابات فروری میں ہی ہوں گے اور ہم اس حوالے سے پاکستان بھر میں رابطے کر رہے ہیں۔ پنجاب ہمارا میدان جنگ ہوگا لیکن اس کے علاوہ ہم خیبر پختونخوا اور دوسرے علاقوں سے بھی انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے۔‘‘
’گہما گہمی نہیں ہوگی‘
واضح رہے کہ 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں انتخابی مہموں میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی اور بہت گہما گہمی دیکھی گئی تھی۔ تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ اس بار یہ گہما گہمی شاید ہی نظر آئے: ''اگر انتخابات ہوتے بھی ہیں تو بھی انتخابی مہم میں اتنی گہما گہمی نہیں ہوگی۔ پنجاب اور کے پی میں عمران خان پر غیر اعلانیہ پابندی ہے جبکہ سندھ کے شہری علاقوں کی مقبول جماعت ایم کیو ایم الطاف گروپ پر بھی پابندی ہے۔‘‘
’انتخابی مہم کے لیے فنڈنگ‘
پاکستان میں انتخابی مہم کے لیے فنڈنگ بھی ایک بہت بڑا معمہ ہے۔ ماضی میں ایسی فنڈنگ بڑے کاروباری افراد، پارٹی سپورٹرز اور غیر مرئی قوتیں بھی کرتی تھیں لیکن اب یہ رجحان بدل رہا ہے۔ تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ فنڈنگ کا ایک بڑا حصہ یا تو امیدوار لاتے ہیں یا وہ خود دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جس امیدوار کے حلقے میں جلسہ ہوتا ہے وہ سارے انتظامات کرتا ہے۔ اگر وہ سابق ایم این اے تو وہ شادی ہالز، پیٹرول پمپس اور ٹھیکیداروں سے پیسہ لگانے کا کہتا ہے۔‘‘
احسن رضا کے مطابق اس کے علاوہ بڑے کاروباری افراد بھی جماعتوں کو فندز دیتے ہیں جیسے کہ ن لیگ کو انجم عقیل اور کھوکھر برادران اور پی پی پی کو رئیل اسٹیٹ کے لوگ: ''اس کے علاوہ کچھ امیر امید وار اپنی انتخابی مہم اپنے پسیوں سے چلاتے ہیں اور پارٹی کو بھی فنڈ دیتے ہیں، جیسے کہ جہانگیر ترین، علیم خان اور تنویر الیاس۔ کچھ کاروباری افراد مخلتف جماعتوں کو فنڈز دیتے ہیں، جیسا کہ ملک ریاض، چنینوٹ اور کراچی کے کاروباری افراد۔‘‘