پاکستان انتخابی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرے، امریکہ
13 فروری 2024پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا ایک وفد جیل میں قید عمران خان سے منگل کو ملاقات کرے گا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کس جماعت میں شمولیت اختیار کی جائے۔ ادھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں جماعتوں کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت سازی سے متعلق اہم معاملات پر منگل کو اعلانات ہو سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سیاسی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر ایک بیان میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 'تحریک انصاف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں بیٹھے گی۔ ہمیں کس جماعت کے ساتھ جانا ہے اس کا فیصلہ کل (منگل کو) عمران خان سے ملاقات کے بعد شام تک ہو جائے گا۔‘
انتخابی شکست: متعدد سیاست دانوں کے استعفے
ادھر امریکی قانون سازوں نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ جب تک تحقیقات مکمل نہ ہو جائیں، اس وقت تک پاکستان کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا جائے۔
امریکہ کا بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا ماطالبہ
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یورپی یونین، برطانیہ اور دیگر ممالک کی طرح ہی عوامی سطح پر اور نجی طور پر بھی، پاکستان کے حالیہ انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور، ''ہم نے حکومت پاکستان سے یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن میں سامنے آنے والے عوامی فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے۔''
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران پاکستانی انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں اور دھاندلی پر تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان کے انتخابی عمل میں آزادی اور شفافیت کی کمی پر امریکہ کو تشویش
ان سے جب اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ''مجھے نہیں معلوم کہ وہ (پاکستانی حکومت) اس کے لیے کس ادارے یا سسٹم کی تجویز کر رہے ہیں جو آزادانہ تحقیقات پر عمل کرے گی۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''ابھی تو یہ ابتدائی قدم اٹھانے کی بات ہے، پاکستان میں قانونی نظام کو اس حوالے سے خود آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے، یہی پہلا مناسب قدم ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قدم اٹھانا بھی ضروری ہے۔''
پاکستان میں جمہوری عمل میں ہماری دلچسپی برقرار رہے گی، امریکہ
تحقیقات پر دباؤ کے لیے دوسرے آپشنز پر غور
امریکہ نے انتخابات سے متعلق تشدد کے واقعات کے ساتھ ہی انٹرنیٹ اور سیل فون سروسز پر پابندیوں کی بھی مذمت کی، جس سے انتخابی عمل بری طرح متاثر ہوا۔
اقوام متحدہ اور امریکہ کی پاکستان اور ایران سے تحمل برتنے کی اپیل
امریکی اہلکار نے یہ تسلیم کیا کہ انتخابات کے دوران انٹرنیٹ اور سیل فون کنکشنز پر لگائی گئی پابندیوں نے انتخابی عمل پر منفی اثر ڈالا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم سیاسی اور انتخابی تشدد اور انٹرنیٹ اور سیل فون سروس پر پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں، جس نے انتخابی سروسز پر منفی اثر ڈالا۔''
ملر نے مداخلت اور دھوکہ دہی کے دعووں کی مکمل تحقیقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، ''ہم آنے والے دنوں میں اس کی نگرانی جاری رکھیں گے۔''
واشنگٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ بے ضباطگیوں کی تفتیش کے حوالے سے دوسرے آپشنز تلاش کرنے پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے۔ ملر نے بتایا کہ بعض امریکی قانون ساز بائیڈن انتظامیہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انتخابات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات مکمل ہونے تک آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرے۔
میتھیو ملر کا کہنا تھا، ''اگر کچھ اضافی اقدامات ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے، تو ہمیں ان پر بھی غور کرنے میں خوشی ہو گی۔ ہم یہ بھی یقیناً کہیں گے دنیا میں کہیں بھی ہم اجتماع کی آزادی کا احترام دیکھنا چاہتے ہیں۔''
دریں اثنا نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے انتخابات کے بعد اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ کسی ملک کے کہنے پر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ دوست ممالک ہیں لیکن وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے ہیں۔
پاکستانی عوام کو امریکہ کی مبارک باد
انتخابات میں حصہ لینے پر پاکستانی عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے میتھیو ملر نے پولنگ ورکرز، سول سوسائٹی، صحافیوں، اور انتخابی مبصرین کو جمہوری اور انتخابی اداروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے پر انہیں مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ حکومت انتخابات میں عوام کی مرضی کا احترام کرے۔ جمہوریت کے تئیں واشنگٹن کی وابستگی پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انتخابات کے دوران قانون کی حکمرانی، آئین کا احترام، آزاد صحافت، متحرک سول سوسائٹی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔''
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)