پاکستان اور امریکہ کے مابین دفاعی مذاکرات کا آغاز
13 فروری 2023پاکستان اور امریکہ کے مابین دو طرفہ دفاعی تعاون پر چار روزہ مذاکرات آج پیر کے روز سے واشنگٹن میں شروع ہو رہے ہیں۔ بعض ناقدین کے خیال میں اس نوعیت کے مذاکرات کا استعمال کر کے امریکہ پاکستان سے فوجی اڈے حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں امریکہ کو پاکستان میں زمینی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں۔
ان دو طرفہ مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت چیف آف جنرل اسٹاف جنرل محمد سعید کر رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ دوسرے سینئر فوجی اور سویلین حکام بھی موجود ہوں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بات چیت کے دوران دفاع، اسٹریجک تعاون، علاقائی مسائل اور بین الاقوامی معاملات زیر بحث آئیں گے۔
کیسا اسٹریٹیجک تعاون؟
کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابقہ سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کی رائے میں پاکستان کے امریکہ سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات ہونے چاہیے لیکن ان کے بقول تاریخی طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کا فائدہ پاکستان کو کبھی بھی نہیں پہنچا۔
ڈاکٹرطلعت اے وزارت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بظاہر لگتا ہے کہ ڈائیلاگ کا مقصد اسٹریٹیجک تعاون ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس خطے میں بھارت امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے، جو پاکستان کا دشمن بھی ہے تو ایسے میں وہ پاکستان سے کسی بھی طور پر اسٹریٹجک تعاون
کیسے بڑھا سکتا ہے۔‘‘
فاصلے پیدا کرنے کی کوشش
ڈاکٹر طلعت کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اس طرح کے دفاعی ڈائیلاگ کو استعمال کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ چین سے فاصلہ اختیار کرے اور دیگر علاقائی ممالک سے بھی تعلقات محدود رکھے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں یہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ اس ڈائیلاگ میں ہم امریکہ سے دہشت گردی کے خلاف کسی طرح کی مدد حاصل کر لیں گے کیونکہ امریکہ نے خود شام اور لیبیا میں دہشت گرد گروہوں کو استعمال کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ممالک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ اس کا مقصد یہ لگتا ہے کہ وہ (امریکہ) پاکستان اور چین کے درمیان فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ سی پیک کا اقتصادی منصوبہ ناکام ہو اور چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹو ختم ہو۔‘‘
امریکہ خطے میں موجودگی کا خواہاں
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سرد جنگ کے دوران پاکستان اور امریکہ کےبہت قریبی تعلقات تھے۔ پاکستان نے اسے فوجی اڈے بھی دیے جبکہ جنرل مشرف کے دور میں بھی کچھ فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کیے گئے۔ ان ناقدین کے مطابق امریکہ اب بھی پاکستان میں کچھ فوجی اڈوں کا طلب گار ہے تاکہ چین اور خطے کے دوسرے ممالک کے لیے مسائل کھڑے کر سکے۔
اسلام آباد میں مقیم ایک دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق اس بات میں وزن ہے کہ امریکہ خطے میں موجودگی چاہتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' امریکہ نے چین اور روس کو اپنا دشمن قرار دیا ہے۔ اس لیے وہ دہشت گردی کے نام پر پہلے پاکستان کے لیےمسائل کھڑے کرنا چاہتا ہے اور بعد میں فوجی اڈے مانگے گا، جس کا مقصد ممکنہ طور پر روس، چین اور ایران پر نظر رکھنا ہوگا۔‘‘
جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنے وسائل استعمال کر سکتا ہے اور اس کو دوسرے ممالک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پچھلی افغان حکومت کے امریکہ اور بھارت نواز عناصر وسطی ایشیائی ریاستوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، جو ٹی ٹی پی کی بھی مدد کر رہے ہیں اور افغانستان میں بھی شر پھیلا رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ خطے میں ایک بار پھر دہشت گردی کو پروان چڑھایا جائے تاکہ امریکہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر ایک بار پھر ادھر کا رخ کرے اور پاکستان کو بھی یہ باور کرائے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرے گا۔‘‘
کوئی موجودگی نہیں چاہیے
تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہامریکہ کو اس خطے میں اب کسی طرح کی موجودگی نہیں چاہیے۔ اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا کہنا ہے کہ ان دفاعی ڈائیلاگ کو معمول کی کارروائی سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ کوئی سینیئر لیول کے ڈائیلاگ نہیں ہیں۔ انہیں اتنی اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ بلاوجہ کا پروپیگنڈہ ہے کہ امریکہ فوجی اڈے چاہتا ہے۔ نہ امریکہ نے فوجی اڈے مانگے ہیں اور نہ ہی ہم انہیں فوجی اڈے دینے جا رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر ظفر نواز کے مطابق اگر دہشت گردی کے لیے امریکہ کو ڈرون استعمال کرنے پڑے، تو وہ بحرین، قطراور متحدہ عرب امارات تینوں جگہ اپنی موجودگی رکھتا ہے اور وہ ان ڈروں طیاروں کو وہاں سے استعمال میں لا سکتا ہے۔
ظفر نواز جسپال کے مطابق اگر امریکہ کو چین پر نظر رکھنی ہو تو وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دے گا، جس سے امریکہ کے پہلے ہی تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’تو وہ ہم سے اپنی موجودگی کے لیے کوئی جگہ کیوں مانگے گا۔‘‘