پاکستان اور سعودی عرب کے بغیر طالبان اور امریکا کے مذاکرات
8 جنوری 2019امریکا اور افغان طالبان کے درمیان بدھ نو جنوری کو قطری دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا ایک نیا دور ہو گا۔ اس دو روزہ میٹنگ میں امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد طالبان نمائندوں کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کے امکانات پر توجہ مرکوز کریں گے۔ یہ اس نوعیت کا چوتھا مذاکراتی راؤنڈ ہے۔
طالبان کے ایک نمائندے نے شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی مشاورتی عمل مکمل ہونے کے بعد اُن کی قیادت نے دوحہ مقیم اپنے نمائندوں کی امریکی سفیر کے ساتھ خلیجی ریاست کے دارالحکومت میں ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ طالبان کی جانب سے یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ بدھ سے شروع ہونے والے دوحہ مذاکراتی راؤنڈ میں کسی اور ملک کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہو گا۔
گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والے امریکا اور طالبان مذاکرات میں سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ طالبان کے اسی لیڈر نے واضح کیا کہ بات چیت کے اگلے راؤنڈ میں وہ امریکی اہلکاروں کے ساتھ براہ راست ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔
اس لیڈر کے مطابق بدھ کے روز شروع ہونے والے مذاکراتی عمل میں امریکی فوج کی واپسی، قیدیوں کے تبادلے اور طالبان لیڈروں کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کا خاتمہ اہم موضوعات ہیں۔
ایک سینیئر طالبان اہلکار کے مطابق دوحہ بات چیت میں کابل حکومت کا کوئی وفد شریک نہیں ہو گا۔ افغان طالبان نے ماضی میں کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کی کئی پیشکشوں کو مسترد کر دیا تھا۔ طالبان کا موقف ہے کہ کابل حکومت بااختیار نہیں بلکہ امریکا کی ایک کٹھ پتلی ہے۔ طالبان قیادت امریکا کو براہ راست اپنا حریف تصور کرتی ہے۔
اس تناظر میں پاکستان اور ایران کی حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ افغان طالبان کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات و مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کریں۔ اس حوالے سے ابھی تک طالبان لیڈر شپ نے کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔