پاکستان: بگڑا گھر اور الجھے خواب
22 مارچ 2021اس کے باسیوں نے اسے کیسے بھگتا؟ یہ حقیقت اس سے بھی زیادہ تلخ ہے۔ یہ سب کچھ ہماری زندگی میں ہی ہوا۔ آنکھ کھولی تو جنرل ایوب کا مارشل لاء، اسکول کی دہلیز پر قدم رکھے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی، لاڑکانہ میں اپنے محلے سے بنگالی پروفیسر انکل اور اپنے دوست کو رخصت ہوتے دیکھا۔ نو عمری میں جنرل ضیاء کا دور اور بھٹو صاحب کی پھانسی۔ فوجی گاڑیوں کے گشت، اپنے اردگرد محلوں میں نوجوانوں کی گرفتاریاں، پراسرا گمشدگیاں ، سیاسی عدم استحکام۔
کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں تعلیمی اداروں کی چار دیواریوں پر ہتھیاروں کا راج، سیاسی اور لسانی جماعتوں کے نوجوان ’’ریمبوز‘‘ کی منطق اور سیاسی بحث و مباحثے کے بجائے بندوقوں سے بالادستی حاصل کرنے کا رواج۔ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم سب کے نوجوانوں کے بیگز میں ہتھیار اکثر و یشتر لازمی حصہ تھے اور جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم کے نوجوانوں کا جنرل ضیاء کے اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدوں کے خمار میں اپنے آپ کو ضیاء کی نظریاتی اساس کا محافظ سمجھنا۔
طالبان دور سے عشروں قبل ہی ہم نے ان کے سخت گیر نظام کی جھلک اپنے تعلیمی اداروں میں دیکھ لی تھی۔ کالجز اور یونیورسٹی میں جوڑوں کے ایک ساتھ بیٹھنے پر پابندیاں، سیاسی قیدیوں کو سر عام کوڑوں کی سزائیں۔
افغانستان اور کشمیر کے جہاد کے لیے کھلم کھلا بھرتیاں، ہم جماعت اعظم کی لاش آج تک افغانستان کی پہاڑیوں سے واپس نہیں آسکی۔ ماں اکلوتی اولاد کے غم میں روتے روتے دنیا سے چند برس قبل رخصت ہوئی۔ ضیاء دور میں معاشرے میں انتہا پسندی کے بیج بوئے گئے، جو اب تناور پودوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایسا بگاڑ کہ گھر کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے کمزور کر دیا گیا۔
پاکستان کی ماضی میں بڑی غلطی جب جنرل ضیاء نے افغانستان میں امریکا کی سوویت یونین کے خلاف لڑائی کا "مذہبی” طوق اپنے گلے میں ایسا پہنا کہ اسے اتارتے اتارتے ریاست ہلکان اور معاشرہ اب تک لہولہان ہے۔
طالبان دور اور ان کے سخت گیر نظام کو عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود تسلیم کیا گیا۔ مجھے یاد ہے ان دنوں کراچی سے مدارس کے طلباء سے بھری بسیں کوئٹہ روانہ ہوتی تھیں، جہاں سے ان کے قافلے قندھار جاتے تھے۔ طالبان کی شمالی اتحاد کے خلاف لڑائی میں مدد کے لیے پاکستان میں مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور دوسرے مدارس میں چھٹی کا اعلان کر دیتے تھے تاکہ طلباء افغانستان کے جہاد میں حصہ لے سکیں۔
قصہ مختصر کہ جب جنرل مشرف کے دور میں امریکا کی جنگ کو اپنانے کی غلطی کو دہرایا گیا تو کیا صدر بش کی دھمکی کی وجہ سے حامی بھرنا پڑی یا اپنے ماضی کی وجہ سے انکار کی گنجائش نہیں تھی؟ چلو مان لیتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اس جنگ کو لڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اس دوران یہ موقع تو تھا کہ انتہاپسند اور کالعدم جہادی تنظیموں سے چھٹکارا حاصل ہو جاتا۔
جنرل مشرف نے پالیسی ساز تقریر بھی کی کہ پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا، پالیسیاں تبدیل ہوں گی۔ قباحتیں ہوں یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اندھیرے میں لپٹے سیاہ خطرات یا امریکا پر عدم اعتماد یا ماضی کا بوجھ، ان فرقہ ورانہ گروہوں اور تنظیموں سے چھٹکارا نہ مل سکا۔
کچھ ماضی کے نظریاتی اثرات بھی غالب تھے۔ نائن الیون کے بعد جب اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل (ریٹائرڈ) معین الدین حیدر، بنوری ٹاون کے مرحوم مفتی نظام الدین شامزئی، مفتی جمیل اسپیشل جہاز میں قندھار میں ملا عمر کو سمجھانے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے گئے کہ اسامہ بن لادن کو پناہ نہ دیں ورنہ آپ کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور تباہی بھی پھیلے گی۔
ملا عمر تو نا مانے اور جو اس کے بعد کا حال ہوا ہم جانتے ہی ہیں۔ وفد کی ناکامی کے بعد اس میں شامل ایک سینئر ترین سیکورٹی اہلکار کو جنرل مشرف نے عہدے سے علیحدہ کر دیا تھا۔ ان دنوں افواہ گردش میں رہی کہ موصوف پر ملا عمر کو ڈٹے رہنے کے مشورہ دینے کا شک تھا۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل، جنہیں ’’طالبان کا گارڈ فادر " کہا جاتا تھا، آخری وقت تک جہاد اور افغانستان میں اسلامی انقلاب کے خواب دیکھتے رہے۔
لیکن بدقسمتی دیکھیے ستر ہزار جانیں بھی گنوائیں، اربوں ڈالر کی معیشت کا نقصان اٹھایا، مشرف دور میں ہوائی اڈے اور فوجی اڈے بھی فراہم کیے، زیر لب ڈرون حملوں کی اجازت بھی دی گئی، جواب میں امریکا اور عالمی برادری سے اپنی جھولی میں ''عدم اعتماد‘‘ اور ''شکوک و شبہات‘‘ کے دہکتے انگارے اکھٹے کیے۔ عالمی برادری کا دوش مگر کہیں نہ کہیں ہمیں ماضی کی ترازو میں بھی جانچا گیا ہو گا۔ چند برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کے رویوں میں تبدیلی نظر آتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد ایک تلخ تجربہ بھی ہوا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار افغانستان میں پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ پاکستان افغانستان اور ایران کے ساتھ بارڈر فینسنگ کر کے سرحدیں محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ سی پیک کے منصوبہ کو سیکورٹی فراہم کرنا اور اپنے آپ کو ماضی کے دراندازی کے الزامات سے دور رکھناچاہتا ہے۔
پاکستان افغان امن عمل میں کلیدی کردار ادا کر کے عالمی برادری بالخصوص امریکا کے سامنے اپنے امیج کی بہتری کا خواہش مند ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ کا خطے میں امن کے لیے بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کی دعوت اس نئے بیانیے کی عکاس ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی سیاہ رنگ کی تلوار کی ضرب کے وار یعنی پاکستان معاشی کنگالی کے بھنور میں پھنسنا نہیں چاہتا۔ اس فرنٹ پر بقول حکام حریف انڈیا کے ’’پروپیگنڈہ‘‘ کا سامنا ہے اور بقول ان کے کچھ مغربی ممالک پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے تکنیکی جال میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ریاستی بیانیے کی نئی جہت یہ ہے کہ ملک کی سلامتی کے لیے معاشی استحکام لازمی ہے لیکن اس کے حصول کے لیے عالمی برادری کے سامنے اپنے کردار اور ماضی کے امیج کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔
تاہم رکاوٹیں سامنے ہیں۔ ماضی کا بوجھ، بین الاقوامی برادری کے ساتھ عدم اعتماد کی فضا، جو بدقسمتی سے پاکستان کی شناخت اس کی سرزمین ہر دہشت گردی کی تاریخ کی وجہ سے کرتی ہے۔ دھرتی کی ہزاروں برس کی تہذیب، ثقافت اور قائداعظم کا اس نئی ریاست کے تصور کو نذر انداز کیا گیا اور تاریخ کا دھارا مذہبی عناصر کی جنونیت کی مرضی و منشا پر چل پڑا، دنیا میں اس کی شناخت مجروح ہوئی۔ پاکستان اس لیبل سے چھٹکارا چاہتا ہے مگر عالمی برادری کی سوچ میں تبدیلی کے لیے خود اپنی سوچ میں مستقل بنیادوں پر تبدیلی لانا ہو گی۔
انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے معتدل، پروگریسو اور لبرل عناصر کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا۔ ان پروگریسو قوتوں میں عمومی طور پر اسی اور نوے کی دہائی کا مائنڈسیٹ ان کی سوچ پر حاوی لگتا ہے۔ اداروں کے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مثبت اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تلخ حقیقت کہ ادارے اور یہ عناصر دونوں ہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ایک طرف حافظ سعید اور مسعود اظہر کو نظر بند کیا جا رہا ہو اور دوسری طرف تحریک لبیک کے مظاہرین منتشر کرنے کے لیے یونیفارم میں ملبوس اہلکار رقم تقسیم کرتے اور معاہدے کرتے نظر آئیں تو ایسے واقعات ریاست کو کمزور اور ان لبرل پروگریسو عناصر کے شکوک و شبہات کو تقویت فراہم کرتے ہیں لیکن ان رکاوٹوں کی باوجود آگے کیسے بڑھا جائے؟
سوچنا! آپ کو کہ کیا جہادی تنظیمیں، جو دنیا میں ملک کے لیے جگ ہنسائی کا باعث رہی ہیں، ان کی مین اسٹریمنگ ہونی چاہیے یا اس معاشرے میں تنہائی کے شکار معتدل اور پروگریسو عناصر کی سوچ کو ریاستی بیانیے میں شامل کرنا چاہیے۔
کیا آئین کے اندر رہتے ہوئے پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی قوم پرستوں کے حقوق کے مطالبات یا تحفظات کو، جو بعض مواقع پر "ناجائز” ہی سہی ریاست کے خلاف بغاوت سمجھا جائے یا انتہاپسند جتھوں کو ریاست کی فالٹ لائن سمجھا جائے۔ سیاست میں مداخلت کے الزامات سے بدنامی کا بوجھ کندھوں پر لادنا بہتر ہے یا جمہوریت کی کھلی فضا میں عالمی برادری میں وقار حاصل کیا جا سکتا ہے؟ سوچنا آپ کو ہے۔
فیصلہ آپ کا کہ کیا صحافت پر پابندیاں لگا کر اور بدنامی مول لے کر اپنا امیج بہتر کر سکتے ہیں یا اپنے تشخص اور نئے ریاستی بیانیے کو آزاد اور تنقیدی سوچ کی آکسیجن سے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بدلتے ڈیجیٹل زمانے میں صحافت کو قید رکھا جا نہیں سکتا۔ بگڑے گھر کی قسمت کے بدلاؤ کی تلاش، الجھےخوابوں میں ممکن نہیں۔