1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، بھارت و نیپال میں مذہبی آزادی، برسلز میں کانفرنس

خالد حمید فاروقی، برسلز
29 مارچ 2017

جنوبی ایشیائی ملکوں پاکستان، بھارت اور نیپال میں مسیحی اور احمدی اقلیتوں کو درپیش مسائل پر یورپی پارلیمنٹ کے کنزرویٹو ریفارمسٹ گروپ نے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اراکین پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/2aGFB
Konferenz in Brüssel
تصویر: DW/K. Farooqi

اس گروپ میں شامل ڈچ رکن پارلیمان پیٹر فان ڈالن نے کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں لیکن پاکستان کا موقف یہ ہے کہ وہ ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے، اس کی پہلی ترجیح دہشت گردی سے لڑنا ہے گو کہ میں پاکستان کو تجارتی رعایت دینے کے خلاف ہوں لیکن اسی پارلیمنٹ میں دوسرے ساتھی رکن پاکستان کو تجارتی رعایت دینے کی حامی ہیں تاکہ اس طرح سے پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے معاملے میں انگیج رکھا جا سکے۔‘‘

ای سی آر گروپ میں شامل ایک اور رکن پارلیمان آرنے گیرک نے کہا:’’پاکستان ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ اسے طے کرنا ہےکہ اسے اپنی اقلیتوں کو پاکستان میں ہی رکھنا ہے یا کئی عرب ملکوں کی طرح باہر نکال دینا ہے۔‘‘

Konferenz in Brüssel
اس کانفرنس میں پاکستان، بھارت اور نیپال میں مذہبی اقلیتوں کو درپیش چیلنجوں پر بات کی گئیتصویر: DW/K. Farooqi

پاکستانی احمدی کمیونٹی کے رہنما فرید احمد نے پاکستان میں اس کمیونٹی کے خلاف ہونے والے اقدامات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آئین کے تحت اور سماجی سطح پر بھی احمدیوں کو اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روک دیا گیا ہے اور احمدی کمیونٹی کے خلاف تشدد روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے مسیحی پادری فادر سیڈرک پرکاش نے نئی دہلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہ گو بھارت آئینی طور پر ایک جمہوریت ہے لیکن وہاں مسلمان اور عیسائی ہر قسم کے مذہبی اور سماجی حقوق سے محروم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ  بھارت میں ذات پات کا نظام انسانیت سوز ہے۔

بھارت ہی سے ایک اور نمائندے اسٹیون سیلوارج نے اپنے ہاں مذہبی تبدیلی سے متعلق قانون سازی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قانون کی رُو سے نچلی ذات کے ہندو مسلمان ہونے کی صورت میں مراعات یافتہ ہو جاتے ہیں، اس لیے وہاں معاشرے میں بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی کا رجحان بڑھ سکتا ہے، اسی لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

Konferenz in Brüssel
اس کانفرنس سے پاکستان، بھارت اور نیپال سے آئے ہوئے نمائندوں کے علاوہ ڈچ اراکینِ پارلیمان نے بھی خطاب کیاتصویر: DW/K. Farooqi

نیپالی نمائندے پرکاش کھدکا نے کہا کہ ویسے تو نیپال 2007ء سے ایک سیکولر ملک قرار دیا جا چکا ہے لیکن حقیقت میں نیپال ایک ہندو قوم پرست ریاست ہے، جہاں مذہب کی تبدیلی ایک بہت برا مسئلہ ہے۔

پاکستانی نمائندے امجد نظیر نے اپنے خطاب میں یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی تجارتی مراعات کی حمایت کی لیکن اسی کے ساتھ یورپین یونین سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ جی ایس پی پلس سے جڑی شرائط پر عملدرآمد کرے، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اور تمام مکاتب فکر کے لیے آزادی سے اور بلا خوف و خطر مذہبی فرائض کی ادائیگی کو ممکن بنائے۔