پی ٹی آئی کے دس ارکان پارلیمان کی ضمانت منظور
16 ستمبر 2024پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں آٹھ ستمبر کو ہونے والےتحریک انصاف کے جلسے کے بعد اس جماعت کے چیئرمین گوہر علی خان سمیت دیگر قیادت کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس بات پر تنازعہ موجود ہے کہ اس جماعت کے ارکان پارلیمان کو پارلیمان کی عمارت کے اندر سے گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی آئی اور فوج آمنے سامنے، ملکی استحکام خطرے میں؟
پی ٹی آئی اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاریوں کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل
منگل 10 ستمبر کو اس جماعت کے گرفتار شدہ کم از کم 30 افراد کے خلاف ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا، جن میں 10 ارکان پارلیمان بھی شامل تھے۔ ان افراد کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے حوالے سے بنائے گئے نئے قانون کی خلاف ورزی اور انسداد دہشت گردی قانون کی خلاف ورزی کی دفعات عائد کی گئی تھیں۔
پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ برس اگست میں جماعت کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل بھیجے جانے کے بعد سے سخت کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف سیاسی بنیاد پر کیسز بنا کر انہیں سزا سنائی گئی۔
مئی 2023ء میں جب عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں ان کے حامیوں نے احتجاج کیا اور اس دوران فوجی تنصیبات وغیرہ پر پرتشدد حملے بھی کیے گئے، جس کے بعد فوج کی طرف سے اس جماعت کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا۔
تاہم یہ کریک ڈاؤن عمران خان اور ان کی جماعت کی مقبولیت کو کم کرنے میں ناکام رہا اور فروری 2024ء میں جب عام انتخابات منعقد ہوئے تو ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بہت سی نشستوں پر کامیابی حاصل کی، حالانکہ انتخابات سے کچھ وقت قبل اس جماعت سے اس کا انتخابی نشان 'بَلا‘ واپس لے لیا گیا اور اسی سبب اس جماعت کے ارکان نے مختلف انتخابی نشانات کے تحت الیکشن میں حصہ لیا۔ ان انتخابات کے حوالے سے ملکی الیکشن کمیشن پر بدعنوانی اور ملکی فوج کی انتخابی عمل میں دخل اندازی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک پینل کے ماہرین نے رواں برس یہ قرار دیا کہ عمران خان کی حراست کی ''کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی اور اس کا مقصد بظاہر انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا تھا۔‘‘
عمران خان کے خلاف قائم کیے گئے متعدد مقدمات کا فیصلہ ان کے حق میں آ چکا ہے۔
ا ب ا/ع آ (اے ایف پی، مقامی میڈیا)