پاکستان: خود کش حملے میں سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک
12 دسمبر 2023پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ منگل کے روز صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں خودکش حملہ آور نے ایک پولیس اسٹیشن کے مرکزی دروازے پر بارود سے بھری اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا، جس میں کم از کم چار پولیس اہلکار ہلاک اور 16 دیگر زخمی ہو گئے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی میں ایک پھر اضافہ
سرکاری ریسکیو سروس کے ایک اہلکار اعزاز محمود نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے میں 28 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں انسداد پولیو ٹیم کی سکیورٹی پولیس پر فائرنگ
تحریک طالبان پاکستان نے اپنے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ حملہ اس کے عسکریت پسندوں نے کیا اور مزید تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
پاکستان کیوں انتہاپسندی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہا؟
حملے سے متعلق ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟
ایک مقامی پولیس افسر کمال خان نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ خود کش حملے کے بعد کچھ عسکریت پسندوں نے فائرنگ بھی کی اور سکیورٹی فورسز نیز شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
پشاور میں خودکش دھماکا، ہلاکتوں کی تعداد 25 ہو گئی
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈی آئی خان کے درابن اسکول کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا، جس میں سکیورٹی فورسز قیام پذیر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ صبح تقریباً تین بجے دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی اسکول کی عمارت سے ٹکرائی گئی جس سے عمارت منہدم ہو گئی۔
اس کار بم دھماکے کے بعد کچھ عسکریت پسند اسکول کے احاطے میں داخل ہو گئے اور اسی دوران قریب میں واقع درابن پولیس اسٹیشن پر بھی حملہ کر دیا۔ اس موقع پر پولیس اور سکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی۔
حکام کے مطابق درابن میں آج تمام بازار بند ہیں، جب کہ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بھی اگلے اطلاع تک بند رہیں گے۔
پولیس افسر کمال خان نے کہا کہ یہ حملہ افغانستان کی سرحد سے متصل صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا۔ واضح رہے کہ ماضی میں یہ صوبہ عسکریت پسند گروپ 'تحریک طالبان پاکستان' (ٹی ٹی پی) کا گڑھ رہ چکا ہے۔
حملے کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی)گروپ نے لی ہے، جنہوں نے سن 2022 سے ہی سکیورٹی فورسز پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں متعدد ہلاکت خیز حملوں کے ساتھ ہی خیبر پختونخواہ میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رواں برس جنوری میں یہاں کم از کم 101 افراد اس وقت ہلاک ہو گئے تھے، جب ایک خودکش بمبار نے پشاور کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اس باغی گروپ کو افغانستان میں کھلے عام زندگی گزارنے اور نقل و حرکت کے مواقع مل رہے ہیں، اس لیے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹی ٹی پی گرچہ ایک الگ گروپ ہے، تاہم اس کا افغان طالبان کے ساتھ قریبی اتحاد ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)