پاکستان: سال دو ہزار سولہ اور سیاسی و سماجی منظرنامہ
23 دسمبر 2016دو ہزار سولہ کا سب سے دلچسپ منظر سال کے آخری مہینے کے تیسرے ہفتے میں اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ اس وقت جلوہ گر ہوا، جب پاکستانی سیاست کے گرو سابق صدر آصف علی زرداری اپنی غیر اعلانیہ خود ساختہ جلا وطنی ترک کر کے پاکستان کے سیاسی افق پر ایک بار پھر نمودارہوئے۔
لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ جانے والے برس کے بقیہ مہینے دلچسپی سے خالی رہے۔ ایک سو بیس سے زائد ریڈیو و ٹی وی چینلز اور ہزاروں کی تعدا د میں اخبارات، رسائل اور سیاسی جریدے اس بات کے غماز ہیں کہ پاکستان خبر کے حوالے سے قحط زدہ نہیں ہے۔
دو ہزار چودہ میں شروع ہونے والے دھرنے و احتجاجوں نے اس سال بھی وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کا تعاقب جاری رکھا ۔ تاہم اُن کی سانس میں سانس اس وقت آئی، جب پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے کے سربراہ جنرل راحیل شریف گزشتہ مہینے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہٴ گمنامی میں کوچ کر گئے۔ پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے اپنے ایک حالیہ کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ ’راحیل شریف نے اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے ساتھ ساتھ فیلڈ مارشل کا عہدہ بھی مانگا تھا لیکن نواز شریف نے انکار کر دیا‘۔
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں جانے والے بر س میں پاکستان کے سیاسی افق پر کسی زیرک سیاست دان نے نہیں بلکہ ایک جنرل نے راج کیا، جس کے اقدامات، فرمودات، بیانات اور دورے پورے سال ذرائع ابلاغ کی زینت بنے رہے۔ تاہم ان کی رخصتی سے پاکستان میں ایک بار پھر سول حکومت کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مضبوط کرے۔
عمران خان کی سیاسی قلابازیاں، الطاف حسین کی شعلہ بیانیاں، محمود خان اچکزئی کی اشتعال انگیز کہانیاں اور مولانا محمد شیرانی کی لن ترانیاں بھی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنی رہیں۔ ڈی این اے، کم عمری کی شادی اور ڈاکڑ عبدالسلام کے حوالے سے دیے جانے والے بیانات پر مولانا شیرانی کو سول سوسائٹی کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دو ہزار چودہ سے تابعدار سمجھی جانے والی پارلیمنٹ میں اس سال اس وقت ہلچل پیدا ہوگئی، جب دہشت گردانہ حملوں کے خلاف قومی اسمبلی میں محمود خان اچکزئی اور سینیٹ میں کچھ پی پی پی اراکین نے ملکی سلامتی کے اداروں پر سخت تنقید کی۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے حوالے سے حکومت نے وسائل میں کمی کا رونا رویا لیکن اراکینِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشربا اضافے کیے گئے۔ تاہم پارلیمنٹ میں ان سنجیدہ موضوعات سے زیادہ اہم رہے خواجہ آصف کے وہ بیانات، جس میں انہوں نے عمران خان کو شرم دلانے کی کوشش کی اور شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کا خطاب دیا۔ پانامہ لیکس نے تحریک انصاف کے مردہ گھوڑے میں ایک بار پھر جان ڈالی لیکن حکومت کی چالاکیوں نے معاملے کو اتنا بگڑنے نہیں دیا، جتنی کپتان کو امید تھی۔
دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر کمی ہوئی لیکن دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے میں حکومت کامیاب نہیں ہوئی۔ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز اور کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔ اس طرح کی تنظیموں نے پورے سال ملک کے طول و عرض میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یہاں تک کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی شہرت رکھنے والے ایک رہنما حال ہی میں پنجاب اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
کوئٹہ میں وکلاء پر حملہ اور شاہ نورانی کے مزار پر خود کش دھماکے جیسے واقعات کے ذریعے دہشت گردوں نے اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلایا۔ اس کے علاوہ کراچی، سوات اور باجوڑ سمیت کئی قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔ ملک میں لشکر جھنگوی اور داعش کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون بھی نظر میں آیا۔ تاہم حکومت بضد رہی کہ اس عرب تنظیم کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اس ریاستی پالیسی کے باعث نہ صرف ملک میں دہشت گردانہ حملے ہوئے بلکہ بھارت و افغانستان سے بھی تعلقات کشیدہ رہے۔
اقتصادی محاذ پر حکومت نے بلند و بانگ دعوے کیے۔ زرِ مبادلہ اپنی بلند ترین سطح پر رہا۔ اسٹاک ایکسچینجوں نے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سی پیک منصوبوں پر تیزی سے کام کیے جانے کی نوید سنائی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ سات بلین ڈالرز سی پیک پروجیکٹس کے علاوہ آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم بھی بڑھا۔ تجارتی خسارے کو بھی ہوا ملی۔ زرعی شعبے میں بھی منفی رجحان دیکھا گیا جب کہ تعلیم، صحت اور دوسرے اہم شعبے یتیم خانوں کے مناظر پیش کرتے رہے۔
ملک میں چار کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں۔ دو کروڑ سے زائد بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ ہزاروں شیر خوار آسانی سے روکی جانے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ سڑکوں کے جال بچھانے کے دعووں کے باوجود ہزاروں افراد حادثات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے لیکن اقتصادیات کے دامن سے نکلنے والے شماریات کے ہندسے ’سب ٹھیک ہے‘ کی نوید سناتے رہے۔
سماجی سطح پر صوبائی اسمبلیوں نے ترقی پسندانہ قانون سازی کی لیکن رجعت پسند قوتوں کے خوف سے یا تو انہوں نے ان قوانین میں ترمیم کرنے کا وعدہ کیا یا پھر ان پر عملدرآمد کو غیر محسوس طریقے سے روک دیا۔ لہٰذا اقلیتیں، خواتین اور دوسرے کچلے ہوئے طبقات بدستور استحصال کا شکار رہے۔ کئی خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تو دوسری جانب اقلیتوں پر بھی حملے جاری رہے۔ پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے جب کہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک میں بھی یہ صوبہ سب سے آگے رہا۔