پاکستان سمیت مختلف ممالک سے قریبی تعلقات پر نیٹو کا زور
7 فروری 2010نیٹو کے سربراہ کی جانب سے یہ بیان جرمنی کے شہر میونخ میں جاری بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس کے دوران سامنے آیا۔ انہوں نے افغان مشن کی غلطیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عسکری اتحاد کو ایک مشاورتی فورم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ اہم سبق ہے، جو افغانستان کی صورت حال سے سیکھا جا سکتا ہے۔
راسموسن نے کہا کہ ان کی اس تجویز کا مقصد اقوام متحدہ کے کام کا متبادل ڈھونڈنا نہیں بلکہ سلامتی کے امور میں اہم کردار ادا کرنے والے تمام ممالک کے ساتھ ایک نیا تعلق بنانا ہے، جو ناگزیر ہے۔
جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گوٹین بیرگ نے بھی راسموسن کے مؤقف کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے ساتھ مقابلے کی فضا نہیں چاہتے اور نہ ہی نیٹو کو عالمی سیکیورٹی ایجنسی بنانا چاہتے ہیں۔
راسموسن نےتسلیم کیا کہ بین الاقوامی سطح پر اہم ممالک کو شامل کئے بغیر سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان، چین اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے سے نیٹو کو آخر نقصان کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدام سے فائدہ ہی ہو گا، یعنی نیٹو کو ان ممالک کا اعتماد، بھروسہ اور تعاون ملے گا۔
نیٹو کے سربراہ نے کہا کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو سیکیورٹی پارٹنرشپ کے نیٹ ورک کا مرکز بننا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایسے تنازعات پر بھی بات ہونی چاہئے، جن پر نیٹو شاید کبھی کارروائی نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے استحکام میں بھارت اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور چین بھی۔ یہ دونوں ممالک افغانستان کی تعمیر نو کے تسلسل کو مزید آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آندرس فوگ راسموسن نے مؤقف اختیار کیا کہ روس بھی ایسا ہی کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ سیکیورٹی امور پر ماسکو اور نیٹو کے خدشات بھی ایک جیسے ہیں۔
افغانستان میں نیٹو کے 28 ممالک سمیت کُل 44 ممالک کے ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد فوجی تعینات ہیں۔ تاہم آٹھ سال گزرنے کے باوجود وہ طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکہ نے حال ہی اپنے 40 ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا، جس کا بنیادی مقصد وہاں شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ