طلبہ یونینوں پر پابندی کا معاملہ، سپریم کورٹ سماعت پر راضی
5 دسمبر 2024سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ طلبہ یونینوں پر پابندی کے سپریم کورٹ کے 1993 کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی دو درخواستوں پر سماعت کے لیے راضی ہو گئی ہے۔ یہ درخواستیں اسلامی جمعیت طلبہ اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(ایل یو ایم ایس) کے ایک طالب علم رہنما کی جانب سے داخل کی گئی ہیں۔
طلبہ یونینوں کی بحالی کے لیے پاکستان بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ
سپریم کورٹ نے ایم اسماعیل قریشی بمقابلہ اسلامی جمعیت طلبہ کے سیکرٹری جنرل ایم اویس قاسم کیس میں 1993 کے فیصلے میں طلبہ یونینوں پر پابندی کو جائز قرار دیا تھا۔ اپنے فیصلے میں، عدالت عظمیٰ نے طلبہ گروپوں کو مرکزی دھارے کی جماعتوں کے ساتھ الحاق سے منع کیا اور طلبہ کو یونیورسٹی کے قانونی اداروں، جس سے وہ یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مل کر پالیسی سازی میں حصہ لے سکتے تھے، میں عہدوں پر فائز ہونے سے روک دیا تھا۔
ابتدائی طور پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراضات کے ساتھ درخواستیں واپس کر دیں تھیں ۔ تاہم اعتراضات دور کرنے کے بعد آئینی بنچ نے چند روز قبل درخواستوں کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرنے کا حکم دیا۔
سٹوڈنٹس یونین کی بحالی: جمہوری حقوق کی پاسداری یا تعلیمی نظام کی پامالی
پاکستانی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بینچ نے سماعت کے دوران ملک میں طلبہ یونین کی سرگرمیوں کی موجودہ قانونی حیثیت اور صورت حال کے بارے میں اٹارنی جنرل کے دفتر سے مدد طلب کی تھی۔ اسی کے ساتھ بنچ نے وزارت قانون، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔
درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا مطالبہ کرتے ہوئے، عدالت سے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس فیصلے پر نظرثانی کرنے پر زور دیا جس میں کیمپس تشدد کو روکنے کے بہانے طلبہ کی سیاست پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ وہ بیان حلفی، جس پر جواب دہندگان نے طلباء کو دستخط کرنے پر مجبور کیا، اور انہیں "سیاست میں ملوث ہونے" سے منع کیا، مبہم ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر موثر نہیں ہے۔
درخواست گزاروں کے دلائل کیا ہیں؟
درخواستوں میں عدالت سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ یہ بھی اعلان کرے کہ آرٹیکل 17(1) کے تحت حاصل کردہ طلبہ کے "ایسوسی ایشنز یا یونینز بنانے" کے بنیادی حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا سوائے اس قانون کے جو کہ ایک مجاز مقننہ کے ذریعہ نافذ کیا گیا ہو اور طلبہ کو انجمنیں اور یونینز بنانے کا ان کا حق ملنا چاہیے۔
طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم: ذمہ دار کون؟
درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ طلبہ کی سیاست پر پابندی آرٹیکل 17 کے ذریعے ایسوسی ایشنز بنانےکی دی گئی ضمانت کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی دلیل ہے کہ اس طرح کی پابندی کا موجودہ حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے جہاں کیمپس کے تشدد میں مبینہ طور پر کمی آئی ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ کیمپس سیاست جمہوری اقدار کی پرورش اور مستقبل کی قیادت کو فروغ دینے کے لیے بنیادی اداروں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ یہ معاملہ عوامی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پابندی سے ملک بھر کے طلباء متاثر ہوتے ہیں۔
ج ا ⁄ ص ز (خبر رساں ادارے)