پاکستان غیرقانونی تارکین وطن کو واپس لینے پر تیار
6 نومبر 2015یورپ پہنچنے والے لاکھوں مہاجرین کی وجہ سے مغربی ممالک شدید دباؤ میں ہیں اور ان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی کے لیے ان ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے کے خواہش مند ہیں، جہاں سے ان تارکین وطن کا تعلق ہے۔ اب پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے یورپی یونین اور جرمنی کو یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان اپنے ایسے تمام مہاجرین کو واپس لینے پر تیار ہے، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہوں گی۔
پاکستان اور یورپی یونین کے مابین سن 2010ء سے ایک ایسا معاہدہ موجود ہے، جس کے تحت پاکستانی مہاجرین کو واپس بھیجا جا سکتا ہے لیکن اس معاہدے پر عملدرآمد کرنا انتہائی مشکل بن چکا ہے۔ پاکستان سے یورپ پہنچنے والے پاکستانیوں میں سے صرف بیس سے پچیس فیصد افراد کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں لیکن معاہدے پر مشکل عملدرآمد کی وجہ سے ایسا کم ہی ہوا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے والے افراد کو واپس پاکستان بھیجا گیا ہو۔
پاکستانی خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب پاکستانی مہاجرین کی واپسی میں حائل مشکلات کو بہت جلد حل کر لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ پہلے تک پاکستانی مہاجرین کا مسئلہ کوئی زیادہ سنگین نہیں تھا اور یورپ پہنچنے والے پاکستانی تارکین وطن کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔ ان کا تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حالیہ چند ماہ میں غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن کی واپسی کا عمل تیز کر دیا گیا ہے، ’’پہلے غیر قانونی پاکستانی مہاجرین کی دستاویزات کی تصدیق کا عمل انتہائی سست تھا۔ دستاویزات پوسٹ کے ذریعے بھیجی جاتی تھیں، اب ہم نے اس عمل کو الیکٹرانک کر دیا ہے۔ اگر یہ بات کنفرم ہو جاتی ہے کہ ان مہاجرین کا تعلق پاکستان سے ہے، تو سیاسی سطح پر ہم انہیں فوراﹰ قبول کر لیا کریں گے۔ ‘‘ سرتاج عزیز کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب سے مہاجرین کی واپسی سے متعلق تیز رفتار اور موثر طریقہ کار اپنایا جائے گا۔
یاد رہے کہ پاکستانی مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انہیں پاسپورٹ یا پھر شناختی کارڈ کے حصول کے پاکستان کے سفارت خانے یا پھر قونصلیٹ سے رابطہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ یا قونصلیٹ جمع کروائے جانے والے کاغذات تصدیق کے لیے پاکستان بھیج دیتا ہے اور بعض اقات اس عمل میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ یورپ سے واپس بھیجے جانے والے ایسے تارکین وطن کو جہاز سے نہیں اترنے دیا جائے گا، جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ یا پھر پاسپورٹ نہیں ہوں گے۔ اسلام آباد حکام کے مطابق پاکستان ان تارکین وطن کو واپس نہیں لے گا، جن کا کریمنل ریکارڈ ہوا یا پھر ان کے پاس ڈبل نیشنلٹی ہوئی۔
یورپ پاکستانیوں کے لیے قانونی امیگریشن کے راستے کھولے
دوسری جانب سرتاج عزیز نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ یورپ پاکستانیوں کو قانونی امیگریشن کے مواقع فراہم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اچھے تربیت یافتہ افراد ہیں اور ان میں سے بہت سے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح یورپ بھی ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خود بھی اس وقت تیس لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے جبکہ پہلے ان کی تعداد پچاس لاکھ تھی، ’’ہمارے لیے مہاجرین کو قبول کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ مہاجرین کی وجہ سے یورپ میں پائی جانے والی بے چینی پاکستان ایسے ملکوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں سے بھی لوگ یورپ پہنچ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے ہیں، ’’ہمیں اس چیز کو واضح کرنا ہو گا اور اس کی حوصلہ شکنی بھی کرنا ہو گی۔‘‘
لکسمبرگ میں یورپ اور 51 ایشیائی ملکوں کے ’ای ایس ای ایم‘ اجلاس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کا سرتاج عزیز کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد کہنا تھا کہ پاکستان مکمل طور پر تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے کہا ہے، ’’پاکستان کی طرف سے انتہائی مثبت سگنل ملے ہیں۔ اسلام آباد حکومت مکمل تعاون کے لیے تیار ہے۔‘‘
یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے لحاظ سے پاکستان ساتویں نمبر پر آتا ہے۔ رواں برس کے آغاز سے ستمبر کے مہینے تک تیس ہزار سے زائد پاکستانی سیاسی پناہ کی درخواست دے چکے تھے، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ یورپی رہنماؤں کے مطابق پاکستانیوں کی یہ تعداد زیادہ تو نہیں ہے لیکن اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو قابل تشویش ہے۔