پاکستان: قبائلی بچوں کا تاریک مستقبل
10 نومبر 2014
فاٹا کی تمام سات ایجنسیوں میں تقریبا پانچ ہزار سات سو مختلف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں، جس میں گزشتہ چند برسوں میں 550 اسکول دہشت گردی کے نذر ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہزاروں بچوں کی تعلیم متاثر ہوچکی ہے۔ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے تیرہ سالہ عبداللہ تیسری جماعت کا ایک طالب علم تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ ایک دن اس کے سکول کو بم سے اڑا دیا گیا، جس کے بعد نہ تو سکول کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور نہ ہی اس کے گھر والوں نے اسے کسی دوسرے میں داخل کیا، کیونکہ ان کو ہر وقت یہ ڈر تھا کہ کہیں دوبارہ دھماکہ نہ ہوجائے۔ اب وہ اور اس کے پانچ بہن بھائی گھر پر ہی ہوتے ہیں۔ عبداللہ کے بقول ’’ اب تو ہمارا سکول مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، کچھ سکول مرکز بن چکے ہیں اور کچھ پر تو گولہ باری بھی کی جاتی ہے، اب میں کچھ بھی نہیں کرتا، بڑے بھائی کی طرح میں بھی جلدی محنت مزدوری شروع کردونگا، تاکہ پیسے کما سکوں۔‘‘
عبداللہ کی طرح لاکھوں قبائلی بچے تعلیمی ادارے یا پھران میں سہولیات کی غیر موجودگی کی وجہ سے تاریکی کی طرف جارہے ہیں۔ ڈائریکٹریٹ ایجوکیشن فاٹا کے اعداد وشمار کے مطابق قبائلی علاقوں میں بچوں کا سکولوں کو چھوڑنا یا ترک کرنا68 (Dropout) فیصد ہے جس کی بڑی وجہ ناقص نظام تعلیم ہے۔ اس بارے میں فاٹا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن آزاد خان کا کہنا ہے’’ فاٹا میں تمام تعلیمی اداروں میں ہم ابھی تک وہ بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرسکیں ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو کئی ایسے سکول ہیں جن میں پانی، بجلی اور بچوں کے لیے بیت الخلا کی سہولت دستیاب نہیں ہے، بہت سے سکول ایسے بھی ہیں جن کی چاردیواری تک نہیں ہے، جب تک ہم یہ تمام تر بنیادی سہولیات بچوں کو مہیا نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم ان کو سکولوں کی طرف راغب نہیں کرسکتے۔‘‘
آزادخان مزید کہتے ہیں کہ فاٹا میں اکثر سکول بہت دور دراز علاقوں میں واقع ہیں۔ خراب اور کشیدہ حالات میں ان تک پہنچنا چھوٹے بچوں کے لیے دشوار ہوتا ہے۔
فاٹامیں کام کرنے والے ایک بین الاقوامی فلاحی ادارے کے فلیڈ کوآرڈینیٹر عبیداللہ کا کہنا ہے کہ فاٹا کے تمام لوگوں اور خصوصاً چھوٹے بچوں کی زندگیاں شدت پسندی کے واقعات اور رواں فوجی آپریشن کی وجہ سے کافی حد تک متاثر ہوچکی ہیں۔ تباہی اور قتل وغارت کی وجہ سے معصوم بچے ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ان بچوں کے ذہنوں میں یہ گزرر ہی ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ تو ان کا مستقبل بالکل تاریک ہے اور مصیبتوں کو دیکھ کر یقیناً ان کے ذہنوں پر ایک منفی اثر پڑچکا ہے۔‘‘
خیبر ایجنسی کے تحصیل باڑہ کے رہائشی ولید احمد کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ گزشتہ تقریبا دس سالوں سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ان کے بقول پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں کو تو یہ علم بھی نہیں ہے کہ امن وامان کس کو کہتے ہیں کیونکہ وہ ان حالات کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے علاقے کے بچوں کے بارے میں کہتے ہیں۔ ’’بچوں نے کلاشنکوف کلچر کو تسلیم کر لیا ہے، پہلے جب کہیں دھماکہ یا فائرنگ وغیرہ ہوتی تھی، تو بچے ڈر جاتے تھے لیکن اب ان کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ فائرنگ ہورہی ہے، بلکہ اب تو وہ اس جگہ یہ دیکھنے کے لیے جاتے ہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔‘‘
ولید کا خیال ہے کہ فاٹا کے زیادہ تر علاقوں میں ناسازحالات کی وجہ سے نا صرف طالب علم بلکہ اساتذہ بھی تعلیمی اداروں میں پڑھانے سے کتراتے ہیں۔ دوسری طرف نقل مکانی کرنے والے خاندان یا توبچوں کے رہائش اور خوارک کا بندوبست کریں گے اور یا پھران کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ۔ صحت کے مراکز بند ہونے کی وجہ سے بچوں کے علاج گھریلوں ٹوٹکوں سے کیا جاتا ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم ہزاروں سال پیچھے جاچکے ہیں۔ وہ ان بچوں کے مستقبل کے بارے وہ میں کہتے ہیں۔ ’’ ان بچوں کا مستقبل متعصب ہو گا، کیونکہ جس طرح یہ لوگ پیچھے چلے گئے ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک ہی سوال پیدا ہو گا کہ یہ ہمارے ساتھ کیوں ہورہا ہے، اور یہ دہشت گردی کی طرف جائیں گے، اور یہ معاشرے کے لیے ایک بھیانک انکشاف کی طرح ہے۔‘‘