پاکستان،موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور اندرون ملک مہاجرت
26 نومبر 2015پاکستانی ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ حالیہ سالوں میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کو ترک کر کے دیگر مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے والے باشندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی وجہ سمندری پانی کی سطح میں اضافے اور نمک والے پانی کی آلودگی کا خوف ہے۔ ماہرین اس نقل مکانی کی مہم کو ابھی محض آغاز قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین اور تحفظِ ماحولیات کے لیے سرگرم عناصر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لے۔
سطح سمندر میں اضافہ
ماہی گیر محمد یوسف کی فیملی جنوبی پاکستان کے ساحلی علاقے ہاجامرو میں کئی نسلوں سے آباد ہے تاہم یہ جزیرہ جو کبھی ایک خوشحال گھر کی حیثیت رکھتا تھا اب ایک قید سے کم نہیں۔
اُس علاقے میں سمندری سطح مسلسل بڑھنے کے سبب آئے دن طوفانِ گرد و باد و آب کی وجہ سے یوسف کی ذاتی املاک بہہ گئیں۔ اُس کی مچھلیوں کے اسٹاک میں اتنی کمی پیدا ہوئی کہ اُس کے لیے اپنی فیملی کا پیٹ پالنا مُشکل ہو گیا۔ صحت کے گوناگوں مسائل کے شکار اُس کے بچے اب ہلاک ہو رہے ہیں۔
یوسف کی فیملی کی طرح کوئی 60 خاندان کیٹی بندر کے ایک درجن سے زائد مختلف جزیروں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیٹی بندر پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے۔ 62 سالہ مچھیرا یوسف کہتا ہے،’’اگر ہمارے پاس کافی وسائل موجود ہوتے تو ہم پانچ سمال پہلے ہی ماہی گیری چھوڑ کر شہر ٹھٹھہ جا بسے ہوتے۔
پاکستان بھر میں لاتعداد خاندان سمندری سطح میں اضافے، خشک سالی، سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں سے جُڑے دیگر مسائل کی وجہ سے گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔ جو خاندان خوش قسمتی سے مالی اعتبار سے بہتر ہیں وہ ایک علاقے سے ہجرت کر کہ کسی محفوظ علاقے کی طرف نقل مکانی بس جاتے ہیں لیکن جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ان خطرناک علاقوں میں ہی اپنی بقا کی جنگ کر رہے ہیں۔
حکومتی ذمہ داریاں
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے امور کی وزارت کے سیکرٹری عارف احمد خان کے مطابق پاکستان کا آئین دراصل حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر باشندے کو خوراک، رہائش اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے تاہم حکام زیادہ تر اُن شہریوں کو تلافی معاوضہ دیتے ہیں جو ترقیاتی پروجیکٹس جیسے کے سڑک یا پُل کی تعمیر کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت ایسے شہریوں کے لیے بمشکل کچھ کرتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے خطرات سے بچنے کے لیے ایک علاقہ چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں بسنا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم ایک غیر سرکاری ادارے ’پاٹن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ کے قومی رابطہ کار سرور باری کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے خشک سالی، طوفان اور زمینی تودے گرنےکا سبب بننےوالی بارش سے نمٹنے کے لیے ان آفات کے شکار علاقوں میں بسنے والوں کی مدد کے لیے اقدامات نہ کیے تو آئندہ چند سالوں میں اندرون ملک مہاجرت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا،’’ حکومت کو چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی سے جُڑی مہاجرت کو اپنی نیشنل کلائیمیٹ چینج پالیسی کا حصہ بنائے اور اپنے شہریوں کی ان حالات سے نمٹنے میں مدد کرے‘‘۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے دو چار علاقوں کے رہائشیوں کو بڑے شہروں کی طرف منتقل کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت نظر نہیں آتی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر شہری علاقے پہلے ہی سے اتنے گنجاج آباد ہیں کہ وہاں کی صورتحال نہایت پیچیدہ ہے۔