1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں ميڈيا پر قدغنيں اور عالمی سطح پر ان کے اثرات

عاصم سلیم
17 اپریل 2018

ان دنوں پاکستان ميں ايک نجی ٹيلی وژن چينل پر پابندی کا معاملہ نہ صرف ملکی بلکہ غير ملکی ذرائع ابلاغ پر بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پيش رفت ملکی ساکھ کو بھی متاثر کر رہی ہے؟

https://p.dw.com/p/2wAym
Pakistanische Journalisten protestieren gegen Behinderung der Arbeit
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی ٹيلی وژن چينل جيو نیوز اپريل کے اوائل سے بندش کا شکار ہے۔ يہ سلسلہ در اصل مارچ ميں شروع ہوا تھا، جب پہلے فوجی علاقوں ميں جيو نيوز کی نشريات بند کر دی گئيں۔ بعد ازاں اپريل کے اوائل سے يہ سلسلہ پھيلتا چلا گيا اور ملک کے بيشتر حصوں ميں نيٹ ورک کے تمام چينلز بند کر ديے گئے۔ پاکستان اليکٹرانک ميڈيا ريگوليٹری اتھارٹی يا پيمرا نے اس معاملے کا نوٹس ليتے ہوئے کيبل آپريٹرز کو ہدايت جاری کی کہ جيو کو بحال کيا جائے۔ وزير داخلہ احسن اقبال نے يہ بيان ضرور ديا کہ جيو کی بندش ميں حکومت ملوث نہيں تاہم وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکے کہ پھر جيو کی بندش کے پيچھے کون ہے؟

ذرائع ابلاغ پر قدغنيں پاکستان ميں کوئی نئی بات نہيں اور ہر بار کی طرح اس بار بھی انگلياں ملک کی فوجی اسٹيبلشمنٹ کی طرف ہی اٹھ رہی ہيں۔

سينٹر فار ايکسيلنس ان جرنلزم (CEJ) کی کراچی ميں قائم شاخ کے ڈائريکٹر کمال صديقی نے ڈی ڈبليو سے خصوصی طور پر بات چيت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال کسی نے اس بارے ميں کوئی بيان نہيں ديا کہ اس نے يا اس کی کمپنی نے کسی شخص يا ادارے کے کہنے پر جيو کے چينلز کو بند کيا۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ جيو کے مختلف چينلز کی بندش جس طرح ملک گير سطح پر ہوئی ہے، اس سے يہ بات تو ظاہر ہے کہ اس کے پيچھے کوئی ايسی قوت يا ادارہ ہے، جو اتنے اثر و رسوخ کا حامل ہے۔

کمال صديقی نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’جيو پاکستان کا سب سے با اثر اور مقبول ٹی وی چينل ہے جس کی ايک وجہ يہ ہے کہ يہ سب سے بے باک ادارہ ہے۔ اگر کسی فرد يا ادارے کو کوئی مثال قائم کرنی ہو تو اس چينل کو نشانہ بنايا جاتا ہے، جو دباؤ ميں نہيں آتا۔‘‘ اس سينئر صحافی نے مزيد کہا کہ جيو ماضی ميں بھی دباؤ ميں نہيں آيا اور اسی ليے يہ چينل ماضی میں بھی اسی نوعيت کے مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔

دوسری جانب پاکستان ميں ايک تجزيہ کار عامر مغل نے ڈی ڈبليو سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذرائع ابلاغ کے کسی بھی ادارے پر پابندی کے بالکل خلاف ہيں تاہم جيو امکاناً وہی کاٹ رہا ہے، جو اس نے پچھلے چند سالوں ميں بويا۔ مغل کا کہنا ہے، ’’سن 2008 سے سن 2013 کے درميان جيو نے عدليہ کے ساتھ مل کر ايک پارليمانی جمہوری حکومت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، وہ کسی کی آنکھوں سے چھپا نہيں ہے۔ اس چينل نے سابق چيف جسٹس افتخار چوہدری کے وکلاء تحريک ميں ان کا ساتھ دے کر ايک جمہوری حکومت کے خلاف کام کيا اور يہ بات پاکستان ميں ذرائع ابلاغ پر کئی مرتبہ کی جا چکی ہے۔‘‘

عامر مغل کے بقول يہ سوال بھی پوچھا جائے کہ اگر آج فوجی اسٹيبلشمنٹ آج جيو کو نشانہ بنا رہی ہے، تو سن 2008 سے سن 2013 کے درميان يہ چينل کس کی ايماء پر ايک جمہوری حکومت کے خلاف سرگرم تھا؟ تجزيہ کاروں کے مطابق پاکستان ميں ميڈيا پچھلے کئی برسوں سے جن کے ہاتھوں ميں کھيلتا رہا، آج وہی ان کے سامنے آ گئے۔   

پاکستان کس راہ پر گامزن ہے؟ عمران خان کے ساتھ خصوصی انٹرويو

پاکستان ميں ذرائع ابلاغ پر قدغنوں کو مغرب ميں کيسے ديکھا جا رہا ہے؟

امريکا ميں ڈی ڈبليو اردو کی نمائندہ مونا کاظم شاہ کے مطابق حکومت اور اس کے اداروں کو تنقيد اور لوگوں کی آراء کا احترام کرنا چاہيے اور ان کے ليے برداشت ہونی چاہيے۔ آزاد ذرائع ابلاغ در اصل تعليم يافتہ معاشروں کا عکاس ہوتے ہیں۔ مونا کاظم کا مزيد کہنا ہے، ’’ميڈيا بليک آؤٹ اور جبری گمشدگياں ايک ہی سلسلے کا حصہ ہيں۔ معاشرے کو دانشمند يا انتہائی تعليم يافتہ طبقے کی آراء سے دور رکھنے کا طويل المدتی بنيادوں پر نتيجہ ايک ايسے معاشرے کے قيام کی صورت ميں نکلے گا، جو جمہوری اقدار، قيادت، سوچنے سمجھنے کی صلاحيت اور وقار سے محروم ہو۔‘‘

اسی طرح بيلجيم کے دارالحکومت برسلز ميں ايک پاکستانی نژاد صحافی خالد حميد فاروقی نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ اس سے نہ صرف ايک جمہوری ملک کے طور پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ اس سے ملک ميں قانون کی بالا دستی پر بھی سوالات اٹھائے جائيں گے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’انسانی حقوق کا احترام اور ذرائع ابلاغ کی آزادی ’جی ايس پی پلس اسٹيٹس‘ کی دو اہم ترين شرائط ہيں۔‘‘ پاکستان جی ايس پی پلس اسٹيٹس کے حوالے سے پہلے ہی سے دباؤ کا شکار ہے اور اس پيش رفت سے صورتحال مزيد بگڑے گی۔ فاروقی کے بقول بين الاقوامی صحافيوں کا ايک اجتماع برطانوی دارالحکومت لندن ميں منگل سترہ اپريل کو ہو رہا ہے، جس ميں يہ معاملہ زير بحث آئے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید