پاکستان میں آزاد عدلیہ اور لاپتہ افراد کا مسئلہ
2 اپریل 2009اس مسئلے نے خاص طور 2006ء میں اس وقت بین الاقوامی اہمیت اختیار کر لی جب جسٹس افتخار چوہدری نے ازخود لاپتہ افراد کے گھرانوں کی مہم کا نوٹس لیتے ہوئے ریاستی اداروں سے گم شدہ افراد کے حوالے سے جواب طلبی کی۔ تاہم 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے معزول ہونے کے بعد گمشدہ افراد کا مقدمہ بھی سردخانے میں چلا گیا اور اس کے بعد سے اب تک یہ مقدمہ دوبارہ سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہو سکا۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد البتہ لاپتہ افراد کے لواحقین بھی پرامید ہیں کہ انہیں عدالت عظمیٰ ریلیف فراہم کرے گی۔ اس حوالے سے ایک لاپتہ تاجر مسعود جنجوعہ کی اہلیہ اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ جنجوعہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا : ’’عدالتی عمل اور تحقیقات مکمل ہوں تا کہ میرا خاوند گھر آئے میں اپنے بچوں اور اپنے خاوند کے ساتھ خوشی کی زندگی گزاروں۔ اسی طرح ہر خاندان اس امید میں ہے کہ اب میرے خاوند، بھائی، میرے بیٹے کا مسئلہ حل ہونے والا ہے۔‘‘
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر سے تقریباً0001 افراد لاپتہ ہیں جن میں سے 800کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ صرف 150 افراد عدالتی احکامات کے نتیجے میں رہا ہو سکے ہیں۔ متعدد گمشدہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی عدالتوں کی طرح اب پاکستانی عدلیہ کو بھی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔
’’پاکستان جہاں پر اداروں کے اندر قانون کی بالا دستی کا معاملہ اپنی کم ترین سطح پر ہے سول اور ملٹری بیوروکریسی، سیاستدان اور اعلیٰ حکام اس کو اس طرح نظر انداز کرتے ہیں جیسے اس سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔‘‘
مبصرین کے خیال میں لاپتہ افراد کے مقدمے اور عوامی نوعیت کے دیگر مسائل جن میں پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں کا تعین شامل ہے ایسے معاملات پر عدلیہ کی سرگرمی سے انتظامیہ کو ایک بار پھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔