پاکستان میں انتخابات سے قبل سکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ
16 جنوری 2024حکام کی جانب سے یہ فیصلہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے قبل ہونے والی ممکنہ دہشت گردی اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا۔
پاکستان کو ماضی میں انتخابات کے دوران پرتشدد واقعات کا سامنا رہا ہے جس میں متعدد سیاسی امیدواران اور ووٹروں کو انتہا پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔
کمانڈر فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) معظم جاہ انصاری نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ فروری کے پہلے ہفتے میں تقریباً 5000 ایف سی کے اہلکار افغانستان کی سرحد سے متصل صوبہ خیبر پختونخواہ میں تعینات کیے جائیں گے۔
پولیس کے مطابق گزشتہ ہفتے خیبر پختونخواہ میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والے ایک آزاد امیدوار اپنے دو معاونین کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ایک سینئر حکومتی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں 8 فروری کو پولنگ اسٹیشنوں پر اضافی نفری تعینات کی جائے گی۔پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 1700 جبکہ کراچی میں 400 اضافی ایف سی اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال قاتلانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ ان اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں سال 2023 میں 1,500 سے زائد شہری، سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان اس وقت ملک کے لیے سکیورٹی سے متعلق ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اسلام آباد نے ماضی میں افغان طالبان حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو پناہ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستانی سر زمین پر حملہ کرنے کی اجازت بھی دیے ہوئے ہیں۔ تاہم کابل نے مسلسل پاکستان کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
گزشتہ سال جنوری میں ٹی ٹی پی نے پشاور میں واقع پولیس ہیڈکوارٹر کی مسجد میں دھماکے کی ذمہ دار قبول کی تھی جس کے نتیجے میں 80 سے زائد پولیس اہلکار مارے گئے تھی
اس مسلحہ گروہ کی جانب سے خیبر پختون خواہ میں واقع ایک ملٹری بیس پر دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی ٹکرا کر 23 فوجیوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔
م ق/ ر ب (اے ایف پی)