1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے امریکی پیشکش

عبدالستار، اسلام آباد
20 دسمبر 2022

امریکہ نے تحریک طالبان پاکستان، افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں اور دیگر عسکریت پسندوں کے حوالے سے پاکستان کو مدد کی پیشکش کی ہے۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کو یہ مدد لینی چاہیے، کچھ کے خیال میں یہ مناسب نہیں۔

https://p.dw.com/p/4LEy2
Pakistan Terror 2010
تصویر: AP

واضح رہے کہ پیر کے دن ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ مشترکہ مسائل جیسے کہ دہشت گردی، دہشت گردوں کی افغانستان میں موجودگی اور سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی پر پاکستانی حکومت امریکی حکومت کی پارٹنر ہے اور یہ کہ واشنگٹن  اس حوالے سے پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ چاہے اس کا تعلق موجودہ صورت حال سے ہو، جو بنوں میں رونما ہورہی ہے یا کسی اور صورتحال میں۔

’پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے‘

  بین الاقوامی امور کے کئی مبصرین کا خیال ہے کہ دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیٹا انفارمیشن بہت ضروری ہے، جو پاکستان کے پاس موجود نہیں ہے۔ ان کی دلیل ہے کیونکہ امریکہ افغانستان میں سولہ برس سے زیادہ رہا ہے، تو اس کے پاس یہ ساری معلومات ہیں، جو ٹی ٹی پی سے لڑائی میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکی ٹیکنالوجیکل مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے اس پورے عرصے میں، واحد عنصر ہے جس سے وہ خوفزدہ رہتے تھے وہ امریکی ڈرون حملے تھے۔ ان ڈرون حملوں میں نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، قاری حسین اور الیاس کشمیری سمیت ٹی ٹی پی کے کئی سرکردہ رہنما مارے گئے۔ پاکستان ان تمام تر آپریشنز کے باوجود کوئی بھی بڑا ٹی ٹی پی کا لیڈر نہیں ہلاک کر سکا اور ان کو ختم کرنے کے لیے امریکی ڈرون کا ہی استعمال کیا گیا۔ لہٰذا پاکستان کو امریکہ سے ڈرون ٹیکنالوجی لینا چاہیے یا پھراسلام آباد کو امریکہ کو اجازت دینی چاہیے کہ وہ ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ڈرون کا استعمال کرے۔‘‘

نائن الیون کے ایک عشرے بعد، پاکستان مزید کمزور اور غیر محفوظ

Drohnenangriff Pakistan Taliban Wali-ur Rehman
پاکستان دہائیوں سے دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا ہےتصویر: Reuters

ڈیٹا انفارمیشن

 فراز خان کے مطابق ٹی ٹی پی کے جو دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہیں، ان کے حوالے سے  امریکہ کے پاس پورا ڈیٹا ہے۔ ''دہشت گرد یہاں حملے کر کےافغانستان بھاگ جاتے ہیں۔  افغانستان میں ٹی ٹی پی کی قیادت بھی ہے۔ جب تک اس قیادت کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، ان کی کمر نہیں ٹوٹے گی۔ امریکہ کے پاس اس حوالے سے ڈیٹا موجود ہیں  اور وہ ان کی صحیح لوکیشن بھی پاکستان کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے۔ لہذا پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اور ٹی ٹی پی کو نہ صرف ملک کے اندر ٹارگیٹ کرنا چاہیے بلکہ ملک کے باہر بھی ٹارگٹ کرنا چاہیے۔‘‘

معاونت کی قیمت

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یقیناً پاکستان امریکی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پیشکش کی قیمت کیا ہوگی۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارے برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہے کہ امریکی مدد کبھی بھی شرائط کے بغیر نہیں آتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر پاکستان اس معاونت سے فائدہ اٹھانا چاہے، تو  اسے امریکہ کو فوجی اڈے یا ڈرون کی اجازت دینی پڑے گی۔ اگر پاکستان ایسا کرتا ہے، تو کابل چراغ پا ہو جائیگا جب کہ اڈے دینے کی صورت میں چین بھی خوش نہیں ہوگا۔ تو یقیناً یہ پاکستان کے لیے ایک مشکل صورتحال ہے۔‘‘

امریکا کا داعش کے خلاف طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ

Bombenanschlag in Quetta Pakistan
2013 ء کوئٹہ میں شیعہ مسلم برادری پر ہونے والے خود کُش بم حملہ کے بعد کا منظر تصویر: AP

ممکنہ دوہرا فائدہ

ڈاکٹربکارے نجیم الدین کے مطابق یقیناً پاکستان کو دوہرا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ''اگر پاکستان ٹیکنالوجیکل سپورٹ لے، یا ڈرون حملوں اور فوجی اڈوں کی اجازت دے، تو  یہ ممکن ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو ٹارگٹ کر سکے اور ان کی کمر توڑ سکے۔ امریکی پیشکش کو قبول کر کے پاکستان امریکہ سے مالی امداد بھی لے سکتا ہے، جو اس وقت ملک کے لیے بہت ضروری ہے لیکن سیاسی طور پر ایسا فیصلہ انتہائی مشکل ہوگا۔‘‘

’امریکہ مخلص نہیں‘

کچھ بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں امریکی پیشکش کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ واشنگٹن پاکستان میں دہشت گردی ختم کرنے میں کبھی بھی مخلص نہیں رہا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے ناسور کو خود ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بنوں کے واقعے میں بھی ہمارے جوانوں نے قربانیاں دے کر اس دہشت گردانہ حملے کو ناکام بنایا۔ تو ہمیں اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے، دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ اگر ہمیں ٹیکنالوجیکل سپورٹ درکار ہے تو وہ ہمیں روس یا چین سے لینا چاہیے۔ امریکہ کی طرف نہیں جانا چاہیے۔‘‘

دہشت گردی کے خلاف یورپ متحد

ڈاکٹر طلعت وزارت کے مطابق دہشت گردی کے مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے اسلام آباد کو علاقائی ممالک سے رابطہ کرنا چاہیے۔ '' امریکہ کبھی بھی پاکستان سے مخلص نہیں رہا ہے اور جب اس نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہاں بیٹھ کر بھارت کو مضبوط کیا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ سنگین ہو اور پھر اس کے بہانے وہ یہاں پر فوجی اڈے لینے کی کوشش کرے یا پاکستان سے مطالبہ کرے کہ وہ اسے ایئر اسپیس استعمال کرنے دے۔‘‘