پاکستان میں تازہ ڈرون حملہ، کم ازکم تین جنگجو ہلاک
14 مارچ 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پیر کی صبح یہ ڈرون حملہ شمالی وزیرستان کے اہم شہر میران شاہ کے نواح میں کیا گیا۔ مقامی خفیہ اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پرتصدیق کی ہے کہ گاڑی پر دو میزائل داغے گئے، جس کے نتیجے میں کم ازکم تین مشتبہ جنگجو ہلاک ہو گئے۔
اس سے قبل گزشتہ روز ایک مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں کم ازکم چھ مشتبہ جنگجو ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہو گئے۔ مقامی خفیہ اہلکاروں کے مطابق یہ حملے بھی شمالی وزیرستان میں ہوئے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان کے مرکزی شہر میران شاہ کے قریب واقع ایک گاؤں پر ہوئے حملے میں جنگجوؤں کے ایک مشتبہ ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق مبینہ امریکی ڈرون طیارے نے اس گھر پر دو میزائل داغے۔
میران شاہ کے ایک مقامی خفیہ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی پی اے کو بتایا کہ ان حملوں میں مجموعی طور پر چھ افراد ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے،’ جس مشتبہ گھر پر ڈرون حملہ ہوا، وہ تحریک طالبان پاکستان کے ایک کمانڈر کے زیر استعمال تھا۔ جس کا نام رحیم اللہ ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اس حملے میں رحیم اللہ بھی ہلاک ہوا ہے یا نہیں۔
اطلاعات کے مطابق اتوار کے دن ہی ایک دوسرا ڈرون حملہ اسی علاقے میں ہوا۔ مقامی ذرائع کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہےکہ اس حملے میں کتنے ہلاک یا زخمی ہوئے۔
افغانستان سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں کی طرف سے میزائل داغنا اب معمول کی بات بن چکا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق پاکستان کے ان قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے حامی جنگجو محفوظ پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں، جو افغانستان میں سرحد پار کارروائی کرتے رہتے ہیں۔ جمعہ کے دن ہی اس علاقے میں ہوئے ایک ڈرون حملے میں پانچ مشتبہ جنگجو ہلاک ہو گئے تھے۔
اگرچہ پاکستانی حکومت عوامی سطح پر ڈرون حملوں کی مذمت کرتی ہے لیکن گزشتہ ہفتے ہی فوجی حکام نے اعدادوشمارجاری کیے، جس میں بتایا گیا کہ سن 2007ء سے سن 2011 کے درمیان قریب 164 ڈورن حملے کیے گئے، جن میں 964 سے زائد مسلمان انتہا پسند ہلاک ہوئے۔ شمالی وزیرستان میں تعینات میجر جنرل غیور محمود کے مطابق،’ ان ہلاک ہونے والے جنگجوؤں میں سے 793 مقامی تھے جبکہ 171 کے قریب عرب،ازبک، تاجک، چیچن، مراکشی اور فلپینو تھے‘۔
ان اعدادوشمار کی آزادنہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے کیونکہ یہ علاقہ صحافیوں اور امدادی کارکنان کی رسائی سے باہر ہے اور ہلاکتوں کی خبریں عمومی طور پر خفیہ اداروں کی طرف سے ہی سامنے آتی ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین