پاکستان میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر
29 جون 2016
ان ڈپازٹس سے موجودہ ذخائر میں 50.1 ملین کیوبک فٹ گیس اور 2359 بیرل تیل فی دن کا اضافہ ہوگا۔ یہ انکشاف تیل و قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تیل و قدرتی وسائل کے سامنے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان چھ میں سے چار دریافتیں سندھ میں ہوئی ہیں، جب کہ دو خیبر پختونخواہ میں۔ اس سال مارچ میں شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں گیس کی کٰل طلب میں چالیس فیصد کا شارٹ فال ہے۔ پنجاب اور کے پی دوسو ملین کیوبک فٹ پر ڈے کی کمی سامنا کر رہے ہیں۔ اس حساب سے پچاس ملین کیوبک فٹ گیس کے دریافت ہونے کے باوجود بھی ان دو صوبوں میں شارٹ فال تقریباً 150ملین کیوبک فٹ رہے گا۔
اوگرا کے ترجمان افضل باجوہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’اس سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑا گا۔ کیونکہ ملک میں تیل و گیس کی اچھی خاصی کمی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حکومت نے این ایل جی درآمد کی ہے۔ اس کے بعد بھی کمی کو پورا نہیں کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ حکومت مختلف پائپ لائنوں پر بھی کام کر رہی ہے۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک میں تیل و گیس کی کتنی طلب ہے۔ قیمتوں پر اثر اس لیے نہیں پڑے گا کیونکہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں تو جب وہاں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہم اسی طرح متاثر ہوتے ہیں، جس طرح عالمی مارکیٹ سے جڑے ہوئے دوسرے ممالک ہوتے ہیں۔‘‘
اس اضافے پر سندھ اور کے پی کے قوم پرست رہنما خوش تو ہیں لیکن ان کے خیال میں اس اضافے کا فائدہ صوبوں کے افراد کوحقیقی معنوں میں نہیں پہنچتا۔ سندھی قوم پرست رہنما ایاز لطیف پلیجو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’سندھ میں سانگھڑ،جام شورو،گھوٹکی، بدین اورقمبر شہداد کوٹ سمیت کئی علاقوں میں تیل وگیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں لیکن آپ جاکر ان علاقوں کی پسماندگی دیکھیں تو آپ کا دل خون کے آنسو روئے گا۔ بدین نے سندھ میں سب سے زیادہ تیل پیدا کیا لیکن نہ ہی وہاں آپ کو اسپتال، کالجز اور بہترین اسکول نظر آئیں گے اور نہ وہاں کوئی معیاری سڑک نظر آئے گی۔ قمبر شہداد کوٹ میں امن و امان کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ لوگوں نے وہاں سے ہجرت کی ہے۔ قبائلی لڑائیوں نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ سانگھڑ کا شمار بھی سندھ کے پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ باوجود اس کے یہ علاقہ بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ حکمراں ان علاقوں سے اربوں روپے کما رہے ہیں لیکن وہ آصف زرداری، فریال، ٹپی اور دیگر کی عیاشیوں پر خرچ ہورہا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہم یہ کہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اور وفاق کو قدرتی ذخائر کے حوالے سے جو حصہ پچاس پچاس فیصد دیا گیا ہے وہ صیح نہیں ہے۔ صوبے کا حصہ 75 فیصد ہونا چاہیے اور اس میں سے صوبے کو کم از کم 70 فیصد اس ڈسڑکٹ میں لگانا چاہیے جہاں پر قدرتی ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کے لیے تعلیم وصحت سمیت تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما و سابق سینیٹر حاجی عدیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارا صوبہ اپنی ضرورت سے زیادہ گیس پیدا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے صوبے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں جن علاقوں سے گیس و تیل نکلتے ہیں ان کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جانی چاہیے۔ اٹھارویں ترمیم کے آنے کے بعد صوبوں کو قدرتی ذخائر پر تھوڑا بہت اختیار ملا ہے۔ اس سے پہلے سندھ 70 فیصد سے زیادہ تیل و گیس پیدا کر رہا تھا لیکن اس کا ایک بڑا حصہ پنجاب کو جاتا تھا۔ اب قدرتی ذخائر پر وفاق و صوبوں کا پچاس پچاس فیصد حصہ ہے لیکن اس سے بلوچستان کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اس اصول کا اطلاق نئی دریافتوں پر ہوگا۔ اس کے باوجود بلوچستان اور کی پی کو اٹھارویں ترمیم سے فائدہ ہو ا ہے اور دونوں صوبوں کو مختلف مدوں میں اربوں روپے ملے، جس میں تیل و گیس کی مد بھی شامل ہے۔