پاکستان میں جبری مشقت اوراس کی بدلتی شکلیں
1 اگست 2021چولہے پرکیمیکل لانے لے جانے کے لیے استعمال کیا جانے والے لوہے کا آدھا کٹا ڈرم ایک بڑے کڑاہے کے طور پر رکھا ہے۔ کڑاہے میں کاسٹک سوڈا کھول رہا ہے۔ کیمیائی دھوئیں سے آلودہ فضا میں سانس لینا دشوار اور آنکھوں میں جلن سے بچنا نا ممکن ہے۔
چولہے پر رکھے کڑاہے کی اونچائی کے برابر اینٹیں رکھ کر ایک عارضی پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جس پر ایک دس سالہ لڑکا کھڑا ہے۔
کاشف (فرضی نام) کا کام کڑاہے میں کھولتے کاسٹک سوڈے کے محلول میں پھینکے گئے ایلومینیم کے برتنوں کو چند غوطے دیکر پاس الٹی رکھی چارپائی پر پھینکنا ہے۔
یہ انتہائی پھرتی سے کیا جانے والا کام ہے جس میں زہریلے دھوئیں میں سانس کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ کھولتے محلول کے انتہائی گرم چھینٹوں سے بھی بچنا ہے۔
کاشف کام کے دوران وقفے میں پلیٹ فارم سے اترتا ہے تو اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو اس کی گھنی پلکوں اور سرخ و سپید گالوں پر، جب کہ بہتی ناک ہونٹوں اور ٹھوڑی پر جم چکی ہوتی ہے۔
پوچھنے پر معلوم پڑتا ہے کہ کاشف چھوٹی عمر میں یہ کھٹن کام ان پیسوں کے عوض کر رہا ہے جو اس کے باپ نے کارخانے کے سیٹھ سے معاوضے کے طور پر ایڈوانس میں لیے مگر واپس نہ کیے اور روپوش ہو گیا۔
اب یہاں اور اس جیسے دیگر لاکھوں معاملات میں جہاں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے، وہاں صرف باپ ہی روپوش نہیں بلکہ تمام قوانین اور ان پر عملدرآمد کرانے والے اہلکار بھی روپوش ہیں۔
اور وہ ساری اخلاقیات بھی جن کے بوجھ تلے دبا معاشرہ اس سوچ میں ٹامک ٹوئیاں مارے جا رہا ہے کہ قانون بڑا یا اخلاقیات۔۔۔
دوسرا منظر
اینٹوں کے بھٹے میں ہزاروں اینٹیں پکانے کے لیے ترتیب سے رکھیں جا چکی ہیں۔ کوئلے کی بھرائی کا کام بھی تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور اب اسے آگ دکھانے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
ایںنٹوں کے پہاڑ پر پھیلانے گئے کوئلے کو ہوا کے گزر کے لیے رکھے گئے سوراخوں سے بھی اندر دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کام میں ایک ہی خاندان کے مختلف عمر کے مرد و زن اور بچے انہماک اور مہارت سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دور ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کی ٹیم اس سارے کام کو محفوظ فاصلے سے تمام خفاظتی انتظامات لیے فلما رہی ہے۔
ایک اشارے پر کوئلے کو مخصوص سوراخوں سے آگ دکھائی جاتی ہے، جو تیزی سے ترتیب سے رکھی اینٹوں کے درمیان بنائی گئی سرنگوں میں ایک تمثیلی دوزخ میں بدل جاتی ہے۔
اینٹوں کے ڈھیر کے اوپر ہوا کے گزر کے لیے بنائے گئے سوراخوں سے آگ فواروں کی صورت پھنکارتی ہوئی نکلتی ہے۔
پہلی بار دیکھنے والوں کے لیے یہ منظر انہیں آنکھ نہیں جھپکنے دیتا۔ مکر کیمرے کے لینز سے یہ منظر ایسا دلکش اور دلفریب دکھاتا ہے کہ ماہر کیمرہ مین کا بھی جی نہیں بھرتا۔ کیمرہ مین اس منظر کو بار بار فلماتا ہے۔ خاص طور پراس لمحے کو جب اینٹوں کے دہکتے پہاڑ پر چڑھے نوجوان بار بار اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی مدد سے سوراخوں میں کوئلہ بھرتے ہیں۔
فلم بنتی ہے، بھٹہ مزدوروں کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے سرکردہ افراد کے انٹرویو ہوتے ہیں۔ بھٹہ مزدوروں، خاص طور پر مزدورعورتوں سے بھی سوال پوچھے جاتے ہیں۔ ایک سوال پر کہ اس بھٹے سے آخری بار کسی دوسری جگہ کب گئے، تمام مزدور خاموش رہتے ہیں اور آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں مگر زبان گنگ ہی رہتی ہے۔
پوچھنے پر معلوم پڑھتا ہے کہ بھٹے سے دور جانے کی اجازت نہیں کہ زندگی ایڈوانس رقم کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ باوجود اس کے کہ برسوں پہلے قانون اور عدالتیں بانڈڈ لیبر (جبری مشقت) کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔ مگر تلخ حالات زندگی بدستور پہلے جیسے ہی ہیں۔
تیسرا منظر
والدین پرمعاشی بوجھ کم کرنے اور کووڈ انیس کے باعث بڑھتی گھر کی تنگدستی کو دور کرنے کے لیے احتشام (فرضی نام) بھاگم بھاگ ایک دفترمیں انٹرویو کے لیے پہنچتا ہے۔ وہ ابھی گریجویشن کے تین سال ہی مکمل کر سکا ہے، ابھی دو سمسٹر یعنی ڈگری مکمل کرنے سے ایک سال کی دوری پر ہے۔
انٹرویو مکمل ہونے پر اسے 20 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کی آفر دی جاتی ہے۔ پہلے ماہ کی تنخواہ ادا نہیں کی جائے گی کہ وہ سیکورٹی کے طور پر کمپنی رکھے گی۔ دوسری صورت میں ماہانہ دو ہزار روپے سیکورٹی کے نام پر منہا کیے جائیں گے۔ اور اس طرح سے دس ماہ میں جمع شدہ بیس ہزار روپے ملازمت چھوڑنے یا ختم کیے جانے پر ادا کیے جائیں گے۔
یہی کافی ہوتا مگر احتشام سے ملازمت کے لیے اپنی تمام اسناد بھی کمپنی کے پاس گروی رکھوانے کی شرط بھی رکھی جاتی ہے۔
ملازمت کے لیے اس کے پاس ذاتی موٹر سائیکل، لیپ ٹاپ اور کیمرہ ہونا بھی ضروری ہے کہ کام کمپنی کی پراڈکٹس کی آن لائن پروموشن کرنا اور کمپنی مالک کی، جو کہ خود کو موٹیویشنل سپیکربھی سمجھتے ہیں، تقریروں کو سوشل میڈیا پر پھیلانا اور مونیٹائز بھی کرانا ہے۔
یہ نیا دھندہ جو بظاہر تعلیم یافتہ افراد کی سرکردگی میں پاکستان کے طول وعرض میں تیزی سے پھیل رہا ہے، اپنے اندر اسی جبری مشقت کا عنصر لیے ہوئے ہیں جس کا شکار ہر سال کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہزاروں فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو ہے۔
جبری مشقت کی یہ بدلتی مگر بھیانک شکلیں نام نہاد جدیدیت کے ساتھ متروک نہیں ہو رہیں، بلکہ شکل بدل بدل کر سامنے آرہی ہیں، مگر کوئی قانون یا ضابطہ انہیں نکیل ڈالنے کے لیے موجود نہیں۔
اگر ہے بھی تو مجبور 'ساڈا حق ایتھے رکھ' کا نعرہ مستانہ بلند کرکے اسے حاصل کرنے کا حوصلہ نہیں پا رہے، جب کہ ریاست و حکومت ابھی بھی ان مسائل کے حل سے کوسوں دور کھڑی نظر آتی ہے۔
اگر کاشف، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ان دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچوں میں ہے جو سکولوں سے باہر ہیں، بھٹہ مزدوروں کے حالات تو منظر سے ہٹے اور ہٹانے ہوئے عرصہ بیت گیا کہ اب اس خبر میں کوئی ریٹنگ نہیں رہی۔
احتشام کا تو اس کا شمار ان کروڑوں نوجوانوں میں ہوتا ہے جن کی جوانی کو قوم کا اثاثہ اور ملک کے لیے گیم چینجرکا درجہ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اثاثہ اگر مناسب سمت کی عدم موجودگی میں موالیوں اور جرائم کی دنیا کا حصہ بن گیا تو کیا معاشرے کے لیے وبال جان نہ ہو جائے گا؟
خطرے کو بھانپنا ہو گا، جو پہلے سے ہی خطرے کی حد عبور کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کے لیے 'ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘، مگر کب اور کیسے کہ کاشف کے آنسو تو پلکوں پرسوکھ کر جم گئے اور کوئی پونچھنے والا نہ تھا اور احتشام کا المیہ یہ کہ وہ آنسوؤں سے روئے بھی تو کیسے، کہ ماں اس کو پورا کھانا کھلانے کے لیے خود کم کھاتی ہے اور باپ نے اسے اچھے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے برسوں بیت گئے اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے نہیں خریدے۔
کیا ریاست کبھی ایسی ماں بنی جو بھٹوں اور اس جیسی دوسری جگہوں پر کام کرنے والوں کو بتا سکے اور دکھا سکے کہ دنیا محض ان کا کچا گھر نہیں، اس سے کچھ دور اور پھر وہاں سے بہت دور تک ہے جہاں تک جانا محض ان کی خواہش ہی نہیں حق بھی ہے۔
اے ماں جیسی ریاست تو کب میرے آنسوؤں کو میرے گالوں پر سوکھنے سے پہلے پونچھے گی۔
اے ماں، میری ریاست تو کب میری انگلی تھام مجھے خدا کی زمین پر بنی بھول بھلیوں کی سیر کرائے گی۔
اے ریاست تو کب مجھے پیٹ بھر کھانا دے گی، مگر ایسے نہیں کہ میری ماں کا پیٹ خالی ہو۔