1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں خفیہ آڈیو ریکارڈنگز قانونی یا غیر قانونی؟

22 مئی 2023

پاکستانی حکومت کی طرف سے آڈیو لیکس کے لیے قائم کردہ کمیشن نے کام شروع کر دیا ہے لیکن کئی حلقے اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ آڈیو ریکارڈنگز کس طرح اور کن ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4RfsO
Symbolbild I Indien I Soziale Netzwerke
تصویر: Sajjad Hussain/AFP/Getty Images

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور قانون دان خواجہ رحیم، ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب، چیف جسٹس عطا عمر بندیال کی ساس اور دیگر افراد کی آڈیو لیکس منظر عام پر آئی ہیں، جس پر حکومت نے ایک تین رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے، جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسی کریں گے، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان اس کے دیگر دو اراکین ہونگے۔

ریکارڈنگ کے ذرائع

ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل یا ٹیلی فون کالز کو ریکارڈ کرنے کے مختلف ذرائع ہو سکتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر ڈاکٹر فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون اور موبائل کی ریکارڈنگ آسان ہے جب کہ واٹس اپ کی بہت مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عام ٹیلی فون کی تو ٹیلی فون ایکسچینج کے ذریعے ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے۔ جب کہ موبائل کمپنیوں کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ موبائل فون پر ہونے والی بات چیت ریکارڈ کر سکیں۔‘‘

صحافیوں پر ہونے والے سائبر حملوں کی داستان

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ حکومت موبائل کمپنی سے خود بھی اس طرح کی ریکارڈنگ محفوظ کرنے کا کہہ سکتی ہے یا وہ اپنے بندے وہاں بٹھا سکتی ہے۔ اس ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عموماً حکومتیں قومی سلامتی کا بہانہ بناکر موبائل کمپنی سے یہ ڈیٹا لے سکتی ہیں یا اپنے بندے ماںیٹرنگ کے لیے بٹھا سکتی ہیں۔ کمپنیوں کو کیونکہ بزنس کرنا ہوتا ، تو وہ قومی سلامتی کے معاملے میں نا نہیں کہہ سکتیں۔‘‘

Whatsapp  Logo
واٹس اپ کی آڈیو ریکارڈنگ بہت مشکل ہوتی ہےتصویر: Illia Uriadnikov/PantherMedia

واٹس اپ ریکارڈنگ

ملک میں یہ چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں کہ کیا انتہائی محفوظ سمجھی جانے والی واٹس اپ کی کالز بھی ریکارڈ کی جا سکتی ہیں۔ فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ پگاسسس وہ واحد اسپائی ویئر ہے جس کو کسی موبائل یا ڈیوائس پر لگا کر ٹیکسٹ پیغامات، پاس ورڈ اور دوسری معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ''لیکن پاکستان کے پاس اس اسپائی ویئر تک رسائی نہیں ہے۔ تو پاکستان میں اس کا استعمال نا ممکن ہے۔‘‘

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں واٹس اپ کی کالز اور ڈیٹا کے لیے صرف متعلقہ کمپنی سے مل کر ہی یا درخواست کر کے ہی اس طرح کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے اور یقیناً یہ کمپنیاں کسی بھی حکومت کو اس طرح کی اجازت، خصوصاً تیسری دنیا کے کسی ملک کو اجازت، نہیں دینگی۔‘‘

ٹین ایج ہیکرز، جو مائیکروسافٹ، اوبر اور کئی حکومتی سائٹس کو نشانہ بنا چکے ہیں

 

فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ کسی کے موبائل کو ہیک کرلیا جائے اور پھر واٹس اپ کی فون ریکارڈنگ یا دیگر ڈیٹا حاصل کیا جائے۔ ''یہ ممکن ہے کہ بعض اوقات آپ انجانے میں کوئی ایسا لنک کلک کر لیں یا کوئی ایسا میسیج کھولیں، جس کو کھولتے ہی ساتھ آپ کے موبائل یا ڈیوائس پر کوئی ایسی اپلیکیشنز انسٹال ہوجائے، جس کی وجہ سے آپ کے ڈیٹا تک رسائی ممکن ہو۔ ایسی صورت میں آپ کے موبائل میں گفتگو کے دوران اس اپلیکیشن کا چلنا ضروری ہے۔‘‘

Symbolbild WhatsApp
قومی سلامتی کا بہانہ بناکر موبائل کمپنی سے ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہےتصویر: Kirill Kudryavtsev/AFP via Getty Images

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا موبائل کسی دوسرے شخص کو دے، تو اس موبائل میں بھی ایسی اپلیکیشنز انسٹال کی جا سکتی ہیں، جو ڈیٹا حاصل کرنے میں مدد کریں۔

ریکارڈنگ بالکل غیر قانونی ہے

پاکستان میں ٹیلی فون ریکارڈنگ کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ نوے کی دہائی میں نون لیگ کے رہنما سیف الرحمان کی آڈیو منظر عام پر آئی تھی۔ بالکل اس طرح ایک جج ملک قیوم کی وڈیو بھی پی پی پی کے رہنما آصف علی زرداری کے حوالے سے منظر عام پر آئی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ ممالک میں عدالتی اجازت کے بعد حکومت کے ادارے قومی سلامتی اور دوسرے معاملات پر ریکارڈنگ کر سکتے ہیں۔ لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے قانونی ماہر اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ایسی کسی بھی ریکارڈنگ کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' چاہے وہ خواجہ رحیم یا ثاقب نثار یا کسی اور کی ٹیلی فون پر بات چیت ہو۔ اگر اس کو ریکارڈ کیا گیا ہے، تو وہ بالکل غیر آئینی اورغیر قانونی ہے۔‘‘