پاکستان میں درجنوں مجرموں کو پھانسی
21 اپریل 2015خبر رساں ادارے ڈی پے اے نے پاکستانی وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سولہ مجرموں کو صوبہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں پھانسی دی گئی ہے جبکہ بلوچستان میں ایک مجرم کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق منگل کے روز پھانسی پانے والے مجرموں کی تعداد 14 ہے۔
منگل کی علی الصبح دہشت گردی میں ملوث افراد کی بجائے اُن مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے، جو قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے۔ ان میں ایک مجرم وہ بھی تھا، جس نے ایک ہی خاندان کے سات افراد کو قتل کیا تھا۔ پاکستان میں دسمبر کے بعد صرف دہشت گردی میں ملوث افراد کو پھانسی دی جارہی تھی تاہم مارچ میں سزائے موت پر عائد پابندی مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد صوبائی حکومتوں کو ہدایات دی گئی تھی کہ سزائے موت کے ایسے تمام مجرموں کو، جن کی اپیلیں مسترد اور معافی کی تمام راستے بند ہو چکے ہیں، پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ برس دسمبر میں سزائے موت پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی جانب سے یہ اعلان پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد سامنے آیا تھا، جس میں ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر اسکول کے طلبہ تھے۔ اس سے قبل پاکستان میں گزشتہ چھ برسوں سے سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق دسمبر میں پابندی اٹھائے جانے کے بعد سے اب تک 76 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ دوسری جانب وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان جیلوں میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب بنتی ہے۔
سن 2008ء سے پاکستان نے اپنے ہاں سزائے موت پانے والے سویلین مجرموں کو پھانسی دینے پر ایک طرح سے پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اس دوران صرف نومبر 2012ء میں کورٹ مارشل کے ایک فوجی مجرم کو تختہء دار پر لٹکایا گیا تھا۔