سرمایہ کاری کے سعودی وعدے کیا حقیقت بن سکیں گے؟
31 اکتوبر 2024سرمایہ کاری کے سعودی وعدے نئی بات نہیں۔ اس سے قبل 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور مختلف شعبوں میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے تھے۔
بعض حلقوں کے مطابق پاکستان ان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہا تھا، جس کی وجہ اندرونی اختلافات، حکومتی سطح پر نااہلی، اور سیاسی عدم استحکام تھی۔
سعودی سرمایہ کاروں کے تحفظات کیا ہیں؟
حال ہی میں پاکستان اور سعودی عرب نے اقتصادی میدان میں تعاون بڑھانے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں۔ رواں ماہ 130 رکنی سعودی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور 2.2 بلین ڈالر کے معاہدے کیے تھے۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ سعودی عرب کے دورے کے دوران مزید 600 ملین ڈالر مالیت کے سات معاہدے طے پائے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی وفد نے معاہدوں پر دستخط کرتے وقت کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان تحفظات میں سب سے اہم پاکستان کی پالیسیوں میں تیزی سے تبدیلی تھی۔ وفد کے ارکان نے مختلف حکام کے ساتھ الگ الگ ملاقاتوں میں حکومت کی جانب سے پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے قبل از وقت خاتمے کا حوالہ دیا۔
اسی طرح انہوں نے ریکوڈک معاہدے کا ذکر بھی کیا، جسے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے منسوخ کیا تھا۔
اگرچہ سعودی سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنا پاکستان کے لیے ایک بہترین موقع ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو سعودی سرمایہ کاروں سے وعدے کرنے سے پہلے مکمل تیاری کی ضرورت ہے۔
کون سے شعبوں میں سرمایہ کاری ممکن ہے؟
سعودی سرمایہ کار جن شعبوں میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں ان میں کان کنی، تیل و گیس، زراعت، توانائی، ٹیکسٹائل، انسانی وسائل اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے شامل ہیں۔
تیل کے شعبے میں سعودی سرمایہ کاروں نے پاکستان ریفائنری لمیٹڈ میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جو اگر حقیقت میں بدلتی ہے تو اس سے ریفائنری کی پیداواری صلاحیت 50 ہزار بیرل سے بڑھ کر ایک لاکھ بیرل یومیہ ہو جائے گی۔
اس حوالے سے آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین اور اٹک ریفائنری لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو عدیل خٹک نے بتایا، ''ایف بی آر کے اختتام پر سیلز ٹیکس سے متعلق کچھ معاملات طے کرنا ہیں، اور بلوچستان سے پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کا مسئلہ بھی حل طلب ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے، مزید پیش رفت نہیں ہو سکتی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ سعودی سرمایہ کاروں نے پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے اعلیٰ اہلکاروں سے ملاقات کی تھی لیکن آئندہ کے اقدامات کا انحصار پاکستانی حکومت کے اقدامات پر ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے اہم سعودی سرمایہ کاروں کی طرف سے زراعت، انسانی وسائل، کان کنی اور صحت کے شعبے میں کیے گئے معاہدے ہو سکتے ہیں، جو افرادی قوت اور اشیا کی برآمدات میں اضافے کے ذریعے طویل مدت میں زر مبادلہ کی آمد کو بڑھا سکتے ہیں۔
زرعی شعبے میں پاکستان اور سعودی عرب نے چار معاہدے کیے ہیں۔ 'اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘ ان منصوبوں کے نفاذ میں اہم کردار ادا کرے گی۔ سابق وزیر برائے سرمایہ کاری محمد اظفر احسن کا ماننا ہے کہ کونسل کا کردار سٹریٹجک ہونا چاہیے اور منصوبوں کے نفاذ میں نجی شعبے کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں دو معاہدے ہوئے ہیں، جن میں سعودی عرب میں ملازمتوں کے لیے طبی عملے کی تربیت شامل ہے۔ جبکہ انسانی وسائل کے شعبے میں سات معاہدے ہیں جن میں سعودی عرب میں انسانی وسائل کی تربیت اور برآمد بھی شامل ہے۔
کان کنی کے شعبے میں دو معاہدے ہوئے ہیں۔ اس شعبے میں سعودی سرمایہ کاروں نے خاص طور پر ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اگر یہ منصوبے عملی جامہ پہن لیتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے زرمبادلہ کے پائیدار اور طویل مدتی ذرائع بن سکتے ہیں۔
سعودی حکومت کی ’سنجیدہ کوشش‘
اظفر احسن کا ماننا ہے کہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب کافی سنجیدہ ہے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں تمام اقتصادی شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس کے پاس ایک ٹریلین ڈالر کا 'پبلک انویسٹمنٹ فنڈ‘ ہے جو 2030 تک دو ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
صرف ازبکستان میں انہوں نے تقریباً 21 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اظفر احسن کے مطابق، ''پاکستان کے پاس سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا اس سے بھی بہتر موقع ہے لیکن ملک کو اپنے اندرونی معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے۔"
اظفر احسن نے کہا کہ پاکستان میں نااہلی، سرمایہ کاری کے مواقع پر سیاسی اثرات، اور پہلے سے موجود سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم نہ کرنے کی وجہ سے مزید سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کو راغب کرنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب تعاون کر رہا ہے یہاں تک کہ سعودی عرب کے وزیر برائے سرمایہ کاری خالد اے الفالح نے سعودی سرمایہ کاروں سے پاکستان کے ساتھ تعاون کی درخواست کی ہے۔ لیکن سرمایہ کاروں کو کچھ تحفظات ہیں۔ وہ وفد جس نے رواں ماہ کے آغاز میں دورہ کیا تھا، نے بھی اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ انہیں صحیح لوگوں سے نہیں ملوایا گیا۔
ریکوڈک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اظفر احسن پر امید تھے اور کہا کہ اس منصوبے میں سعودی سرمایہ کاری ممکنہ طور پر حتمی شکل اختیار کر جائے گی۔
فی الحال اس منصوبے میں بیرک گولڈ کا 50 فیصد حصہ ہے جو کہ ایک کینیڈین کمپنی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کا 25 فیصد، اور وفاقی حکومت کا 25 فیصد حصہ ہے۔
اگر معاہدہ طے پا جاتا ہے تو وفاقی حکومت کا حصہ دس فیصد رہ جائے گا، جبکہ سعودی حکومت 15 فیصد کی شراکت دار ہو گی۔
رپورٹ: عثمان چیمہ