پاکستان میں سورج کے گرد ہالہ، طوفانی موسم کی پیش گوئی؟
7 مئی 2023پچیس اپریل کو کراچی کے مختلف علاقوں میں سورج کے گرد ایک واضح ہالہ دیکھا گیا، جس کے متعلق مختلف غلط معلومات اور افواہیں گردش میں ہیں۔ سورج کے گرد ہالہ کیسے بنتا ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جو چاند یا سورج کے گرد خوبصورت مظاہر تشکیل دیتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ڈوئچے ویلے نے زبیر احمد صدیقی سے خصوصی بات چیت کی ہے۔
زبیراحمد صدیقی فی الوقت پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کراچی میں ڈائریکٹر فورکاسٹنگ اینڈ کلائی میٹولوجی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اس فیلڈ میں 24 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔
سورج کے گرد ہالہ کیسے بنتاہے؟
زبیر احمد صدیقی کے مطابق سورج کے گرد بننے والے ہالے کو سائنسی اصطلاح میں سولر ہالو کہا جاتا ہے۔ زمین پر دریاؤں اور سمندروں وغیرہ سے پانی کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں اور ایک خاص بلندی پر مناسب درجۂ حرارت کے زیر ِ اثر یہ بخارات ٹھنڈے ہو کر پانی کے قطروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اگر بلندی پر حالات بادلوں کے لیے سازگار نہیں ہوں اور درجۂ حرارت مسلسل گرتا رہے یہ تو قطرے مزید ٹھنڈے ہو کر آئس کرسٹل یا برف کی قلموں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ زمین سے 8 سے 16 کلومیٹر کی بلندی پر ماحول کی پہلی تہہ کو ٹروپوسفیئر کہا جاتا ہے، جہاں سے درجۂ حرارت مسلسل گرنا شروع ہوجاتا ہے۔
زبیر صدیقی مزید بتاتے ہیں کہ اس دوران ایئر بورن پارٹیکل (ہوا میں پیدا ہونے والے ذرات) اہم کردار ادا کرتے ہوئے برف کے گالے یا اولے تشکیل دیتے ہیں، جن کا انحصار اس وقت ما حول کی صورتحال، ہوا کے کم دباؤ اور درجۂ حرارت پر ہوتا ہے۔
زبیر صدیقی کے مطابق بہت زیادہ بلندی پر موجود بادلوں میں بننے والی برف کی قلموں کی شکل ہیگزاگونل (چھ کونوں والے) اور اوپرکی سطح بالکل ہموار ہوتی ہے۔ ان بادلوں کو سائنسی اصطلاح میں سیرس یا سیرس سٹریٹس کلاؤڈ کہا جاتا ہے۔ ان قلموں پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو یہ ایک Prism یا منشور کی طرح عمل کرتے ہوئے روشنی کو منعطف کر کے سورج کے اطراف دائرے میں بکھیر دیتی ہیں، جس سے سورج کے گرد ہالہ بنتا ہے۔
سورج کے گرد ہالے کی خصوصیات کیا ہیں؟
زبیر صدیقی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اگرچہ بہت بلندی پر برف کی یہ قلمیں بے ترتیب بنتی ہیں مگر یہ سورج کی روشنی کو ہر جانب یکساں بکھیر تی ہیں جس سے خوبصورت ہالہ تشکیل پاتا ہے۔ سورج کے گرد تین اقسام کےہالے بنتے ہیں، جس میں دائروی ہالہ، لائٹ پلرز (روشنی کے ستون) اور پیری ہیلیئن شامل ہیں۔ ان کی اقسام کا انحصار برف کی قلموں کی آپٹیکل (بصری) خصوصیات پرہوتا ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ زیادہ ترگرم علاقوں میں دائروی ہالہ بنتا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس طرح کے ہالے میں رِنگ کے اندر سے روشنی منعطف نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے رِنگ کے اندر آسمان اطراف سے زیادہ گہرے رنگ کا نظر آتا ہے۔
کیا پاکستان میں بننے والا سولر ہالو طوفانی موسم کی پیشن گوئی کرتا ہے؟
پاکستانی معاشرے میں چاند اور سورج کے گرد ہالے بننے سے متعلق طر ح طرح کی توہمات پھیلی ہوئی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ سورج کے گرد ہالہ آنے والے طوفانی موسم کی پیشن گوئی کرتا ہے۔ اس حوالے سے زبیر احمد صدیقی نے بتایا کہ زیادہ گرم اور قطبین کے قریب واقع علاقوں میں جب ایک " کولڈ فرنٹ" یا ٹھنڈا سسٹم کسی گرم علاقے کی طرف بڑھتا ہے تو اس صورت میں بننے والے سولر ہالو سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگلے 12 سے 36 گھنٹے میں طوفانی بارشوں کا ایک سسٹم اس علاقے کی طرف آئے گا۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تربارشیں مون سون، ویسٹرن ڈسٹربینس(بحر الکاہل سے اٹھنے والے طوفان)، سائیکلون یا مقامی گرم و مرطوب ہوا کے باعث ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی نظام کا شمار کولڈ فرنٹ میں نہیں ہوتا۔ لہذا پاکستان میں سورج کے گرد بننے والے ہالے سے کسی بھی طور آنے والے طوفان یا خراب موسم کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
زبیر صدیقی مزید وضاحت کرتے ہیں کہ 25 اپریل 2023 جب سولر ہالو نظر آیا اس سے پہلے ہی کراچی میں ویسٹرن ڈسٹربینس کے زیر ِ اثر آئندہ دو روز میں بارشوں کی پیشن گوئی کی جا چکی تھی۔ لہذا بعد میں ہونے والی بارشوں کا سولر ہالو سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور یہ معمول کی بارشیں تھیں۔
زبیر صدیقی کا کہنا ہے کہ میٹرولوجی کا ہماری روز مرہ زندگی سے گہرا تعلق ہے ہم آفس جارہے ہوں یا سفر پر نکلنے کا ارادہ ہو، پہلے موسم کی صورتحال جانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عام افراد کو اس سے متعلق بنیادی معلومات ضرور ہونی چاہییے۔ میڈیا بھی اس حوالے سے ذمہ داری کا ثبوت دے اور عوام تک درست معلومات فراہم کرے۔ تاکہ جعلی ماہرین کی پھیلائی افواہیں از خود دم توڑ سکیں جو محض اپنے یو ٹیوب چینلز کی ریچ بڑھانے کے لئے اس طرح کی توہمات بریک کرتے ہیں۔