پاکستان میں سیاسی بحران: اگلے اڑتالیس گھنٹے اہم
4 ستمبر 2014اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر دھرنا دینے والی جماعتوں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے نمائندوں کا حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ مکالمت کا اگلا دور آج جمعرات کی رات ہو گا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی قیادت میں پارلیمانی جرگے کے اراکین نے جمعرات کی صبح وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جرگے کے اراکین نے وزیر اعظم کو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مطالبات سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں مذاکرات میں اب تک ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کیا۔ اسی دوران پارلیمان کا مشترکہ اجلاس آج جمعرات کو تیسرے روز بھی جاری رہا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے والی جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٓٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ سیاسی بحران اداروں کے درمیان اقتدار اور ریاست کے کنٹرول کے لیے ہونے والی جنگ کا شاخسانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے اور تمام جمہوریت پسند جماعتیں اس کے دفاع کے لیے متحد ہیں لیکن پارلیمنٹ پر حملوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ انقلاب کے دعویداروں کو معلوم نہیں کہ مزدوروں اور کسانوں کی شرکت کے بغیر انقلاب نہیں آیا کرتے۔ انہوں نے کہا، "آج یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اپوزیشن، تمام جہوری قوتیں، وکلاء، بار ایسوسی ایشنز اور میڈیا ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے کہ پارلیمان اور آئین کو پامال نہیں ہونے دیں گے۔" وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ پاکستانی عوام نے ان غیر قانونی دھرنوں کو پہلے دن ہی مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کے چھ میں سے پانچ مطالبات مانے جا چکے ہیں، اس لیے انہیں دھرنا ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ پارلیمنٹ کو منظور نہیں اس لیے وہ قابل قبول نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ جو اپنی پارٹی میں جمہوریت اور شفافیت نہ لا سکے، ملک کے فیصلے اس کے ہاتھ میں کیسے دے دیے جائیں۔
احسن اقبال نے کہا، "قائد آزادی کو کہتا ہوں کہ اگر دھرنے کی بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایم این اے، ایم پی اے ختم ہو گئے اور اب یونین کونسل کے ٹکٹوں کا واسطہ دے کر بھیک مانگ رہے ہو کہ میرے دھرنے کے لیے بندے بھیجو، تو آؤ، پھر حکومت کے ساتھ صلح کر لو۔" پارلیمان کا مشترکہ اجلاس کل (جمعے کو) چوتھے روز بھی جاری رہے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے جمعرات کو اجلاس کے اختتام کے بعد تحریک انصاف کے ناراض صدر مخدوم جاوید ہاشمی کا قومی اسمبلی کی نشست سے دیا گیا استعفیٰ منظور کر لیا۔ دریں اثناء اسلام آباد میں بدھ کی شب شروع ہونے والی موسلا دھار بارش آج جمعرات کو بھی دن بھر جاری رہی۔ بارش کی وجہ سےشاہراہ دستور پر دھرنے کے شرکاء کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کا پنڈال دن کو بارش کی وجہ سے مکمل طور پر خالی رہا جبکہ عوامی تحریک کے کارکن بھی مخلتف جگہوں پر پناہ تلاش کرتے رہے۔ بارش کی وجہ سے عوامی تحریک کی یقین دہانی کے باجود پارلیمنٹ ہاؤس کے سبزہ زار کو بھی مظاہرین سے مکمل طور پر خالی نہیں کرایا جا سکا۔
یہ مظاہرین گزشتہ اتوار کی شب کو پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہونے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کی حفاظتی باڑ توڑ کر اندر داخل ہو گئے تھے۔ اس اقدام پر سپریم کورٹ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج میں شامل عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو پارلیمنٹ ہاؤس کا سبزہ زار خالی کرانے کے لیے عوامی تحریک کی قیادت سے بات چیت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ پی ٹی آئی کی بحران کے حل کے لیے حکومت کو تجاویز تحریک انصاف نے حکومت کو آٹھ صفحات پر مشتمل تجاویز پیش کی ہیں جن پر رضامندی کی صور ت میں دھرنا ختم کیا جاسکتا ہے۔ ان تجاویز میں شامل ہے کہ مئی دو ہزار تیرہ میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جوڈیشل کمیشن 30 دنوں کے اندر تحقیقاتی عمل مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ کمیشن کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ وفاقی حکومت یا کوئی بھی جماعت جوڈیشل کمیشن پر براہ راست اثر انداز نہ ہو۔ دھاندلی کی تحیقات کےلیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی جائے۔ ٹیم میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، ایف آئی اے، الیکشن کمیشن اور نادرا کے افسران شامل ہوں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایسے ایماندار افسر کو سونپی جائے جس پر تحریک انصاف کو اعتراض نہ ہو۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مکمل طور پر جوڈیشل کمیشن کے ماتحت کام کرے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے قیام سے پہلے نادرا اور ایف آئی اے کے سربراہان کے علاوہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھی عہدے سے ہٹا دیا جائے اور ان کی جگہ ایسے افراد کو تعینات کیا جائے جن پر تحریک انصاف کو اعتراض نہ ہو۔