پاکستان میں سیاسی بے یقینی اور خوف کے ماحول میں عوام بے بس
25 مئی 2023پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے دس ہزار سے زائد کارکنوں کو پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال میں ایک عام پاکستانی کو جس پریشانی اور خوف کا سامنا ہے، ان میں ایک طرف سیاسی بے یقینی کی فضا ہے اور دوسری طرف جبر کا ماحول۔
حکومت، پی ٹی آئی اور عوام
کسی بھی حقیقی جمہوری معاشرے میں حکومت عوام کی خدمت کے لیے کوشاں رہتی ہے جبکہ حزب اختلاف حکومت پر تعمیری تنقید کرتی ہے، تاہم کئی سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان میں سیاسی اپوزیشن کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کی جا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ریاستی طاقت کے ایسے استعمال پر پہلے سے پریشان حال عوام مزید تشویش کا شکار ہو چکے ہیں اور عام شہری خود سے پوچھنے یہ لگے ہیں کہ آیا ان کی حالت زار کے بارے میں بھی کوئی سوچ رہا ہے۔
تحریک انصاف کی گرفتار خواتین کس حال میں ہیں؟
پاکستان میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور معاشی مسائل اپنے عروج پر ہیں لیکن سیاست دان اور ٹریڈ یونینیں خوف کی موجودہ فضا کے باعث کسی بھی طرح کے احتجاج پر آمادہ نہیں۔ ایسے میں عام لوگوں کا سوال یہ ہے کہ ان کے مسائل کون حل کرے گا۔
عمران خان کا دعویٰ
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے جمعرات پچیس مئی کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، جس سے صرف پی ٹی آئی کو ہی نہیں بلکہ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ان کی پارٹی کے دس ہزار سے زیادہ کارکنوں اور حمایتیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور پوری پارٹی لیڈرشپ کو جیل بھیج دیا گیا ہے جبکہ کچھ رہنماؤں پر تو دوران حراست تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی ریت
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ملک میں نو مئی کے واقعات کو بہانہ بنا کر پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت کے تمام ہتھکنڈے ناکام رہیں گے کیونکہ ملک کے نوجوان تمام تر پابندیوں کے باوجود اور سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق سے آگاہ ہیں اور وہ سیاسی طور پر باشعور ہیں۔
خوف اور خاموشی
پاکستان میں جب بھی سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا ہے، تو ہمیشہ ایسے حلقے موجود ہوتے ہیں جو ایسے کریک ڈاؤن کی شدید مخالفت اور ریاستی جبر کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ لیکن کئی مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں اس کریک ڈاؤن کے خلاف لوگ خوف کی وجہ سے خاموش ہیں۔
تجزیہ نگار ناصر محمود نے اس حوالے سے کراچی سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار کر کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں بلکہ اس طریقہ کار سے بہت سے لوگوں کے کاروبار بھی تباہ ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر رکن سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی کے ایک رہائشی پروجیکٹ کے ایک فلور کو حکومت نے گرانے کی کوشش کی۔ بالکل اسی طرح آفتاب صدیقی، جو پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر تھے، ان کے کئی پروجیکٹس کو نقصان پہنچانے کی دھمکی بھی دی گئی تھی، جس کی وجہ سے وہ پارٹی چھوڑ گئے۔‘‘
عمران ریاض کی گمشدگی میں ملٹری انٹیلیجنس ملوث ہے، آر ایس ایف
ناصر محمود کے مطابق سب کو پتہ ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف کارروائی کون کر رہا ہے اور یہ کاروائی کرنے والے اتنے طاقت ور ہیں کہ عوام ان کے خلاف خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میڈیا میں بھی تحریک انصاف کے حامی اور تجزیہ نگار، جو کل تک تحریک انصاف کے گن گاتے تھے، انہیں آج پتہ ہے کہ طاقت ور حلقے تحریک انصاف کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اس لیے وہ بھی خوف زدہ اور خاموش ہیں۔ اس خوف میں مزید اضافہ عمران ریاض کی گمشدگی اور سمیع ابراہیم کے اٹھائے جانے سے بھی ہواہے۔‘‘
پنجاب میں خوف کے سائے اور ان کی وجوہات
تجزیہ نگار احسن رضا کے مطابق صوبہ پنجاب میں لوگ ریاستی طاقت کے خلاف خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں اور ان کے خیال میں پی ٹی آئی کے خلاف موجودہ حکومت کے اقدامات پیپلز پارٹی کے خلاف جنرل ضیا کے دور کے اقدامات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔
کیا تحریک انصاف کو کالعدم کر دیا جائے گا؟
احسن رضا نے لاہور سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خوف کا عنصر صرف میڈیا میں ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی، جو عموماﹰ ایسے کسی خوف کو خاطر میں نہیں لاتی، وہ بھی ڈری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس لیے کہ عدالتوں کے احکامات پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ سب جانتے ہیں کہ طاقت ور ریاستی ادارے اس وقت پی ٹی آئی کے خلاف ہیں۔ خواتین کی گرفتاریوں نے بھی خوف کے عنصر کو ہوا دی ہے اور لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر وہ اس وقت پی ٹی آئی کے حق میں بولے، تو ان کے گھروں کی خواتین کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ملزم پاکستانی سویلین مگر عدالتیں فوجی: اکثر سیاسی جماعتیں دانستہ چپ
ایک معروف تجزیہ نگار نے اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عوامی سطح پر خوف اس وقت پاکستانی سیاست کا اہم ترین پہلو بن چکا ہے۔‘‘
دوسری طرف احسن رضا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا، ''حکومت کو ملکی اقتصادی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ سیاسی بے یقینی کی فضا اور عوامی سطح پر خوف کا تدارک بھی کرنا چاہیے۔ لوگوں کو حکومت کے عملی اقدامات سے یقین دلایا جانا چاہیے کہ ان کی مسیحائی کی مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘