1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں فیس بُک کا غلط استعمال، مقدمات اور چھاپے

عبدالغنی کا کڑ، کوئٹہ22 جولائی 2014

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کو قواعد و ضوابط کے برعکس استعمال کرنے اور اس پر ممنوعہ مواد شیئر کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CgbD
تصویر: picture-alliance/dpa

اس سلسلے میں متعدد افراد کے خلاف سائبر کرائمز کے متعلقہ قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کئے گئے ہیں اور نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لئے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے ملک بھر میں ان تمام افراد کے خلاف بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں جو کہ سماجی رابطوں کی دیگر معروف ویب سائٹس کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک، ٹویٹر اور دیگر معروف ویب سائٹس پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ملزمان کے خلاف اس کریک ڈاون کا فیصلہ ان بڑھتی ہوئی عوامی شکایات کی روشنی میں کیا گیا ہے، جو کہ پاکستان ٹیلی کیمونیکیش اتھارٹی پی ٹی اے، پولیس اور ایف آئی اے کو ملک بھر سے موصول ہوئی ہیں۔ ایف آئی اے حکام کےمطابق گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران کوئٹہ سمیت ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں عوامی شکایات پر ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل میں 50 سے زائد مقدمات درج کئے جا چکے ہیں اور ان مقدمات میں نامزد افراد کے خلاف پاکستان کے الیکٹرانک ٹرانسیکشن آرڈیننس 2002ء کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ملک طارق محمود کے بقول سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کو آج کل لوگ بڑے پیمانے پر مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور بعض جرائم پیشہ افراد نے آپس میں رابطے کے لئے بھی اسی ویب سائٹ کا استعمال کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’حال ہی میں ہم نے تین نئے کیسز درج کئے ہیں اور امریکی ریاست کیلیفورنیا میں فیس بک کے ہیڈ آفس سے ریکارڈ بھی منگوایا ہے، اس حوالے سے دیگر متعدد کیسوں میں تفتیش بھی ہو رہی ہے کیونکہ ان معاملات میں ریکارڈ ضروری ہوتا ہے۔ باقی بھی سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے حوالے سے ہمیں جوشکایات موصول ہو رہی ہیں، ان پر ہم کارروائی کر رہے ہیں۔‘‘

ملک طارق نے مزید بتایا کہ پولیس افسران کو بھی ان جرائم کی روک تھام کے لئے پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں، ’’ ہم نے پولیس کو بھی اس حوالے سےخصوصی تربیت فراہم کی ہے اور مختلف سیشنز کا انعقاد کیا گیا ہے، جوڈیشل اکیڈمی میں بھی پولیس افسران کو تربیت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس ضمن میں ہم یونیورسٹیوں میں بھی سیمینار منعقد کروا رہے ہیں کیونکہ وہاں بھی سوشل میڈیا کے غلط استعمال ہونےکے زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاکہ طلباء و طالبات کو یہ آگاہی حاصل ہو سکے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کتنا بڑا جرم ہے۔‘‘

معروف قانون دان اور پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران خان مرتضٰی ایڈوکیٹ کے بقول، ’ سوشل میڈیا کو قواعد و ضوابط کے برعکس استعمال کرنے والے افراد کے خلاف پاکستان الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002ء کے چیپٹر اے کے تحت اگر ملزم پر جرم ثابت ہو جائے تو اسے سات سال قید اور ایک ملین روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سیشن ٹرائل ہے اور ملزم کی کیس میں ضمانت بھی نہیں ہو سکتی۔‘‘

واضح رہے کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیمیں کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں 11 ایسے افراد کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر تحقیقات کر رہی ہیں جو کہ سوشل میڈیا پر مختلف اہم شخصیات، سرکاری اداروں اور کمپنیوں کے جعلی اکاؤنٹس بنا کر انہیں ذاتی مقاصد کے لئےاستعمال کرتے رہے ہیں۔