پاکستان میں مردم شماری میں خامیوں پر ماہرین کی تنبیہ
19 مئی 2023پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل قومی مردم شماری غلط تعداد کی شکایات کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے اور بعض سیاسی جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی کے ایک بڑے حصے اور دور دراز شمال مشرقی علاقوں میں اصل آبادی سے کم گنتی کی گئی ہے۔
پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری: کیا شکایات کا ازالہ ہو سکے گا؟
دو مئی تک پاکستان کی کل آبادی 240 ملین بتائی گئی جو کہ سن 2017 کی آخری قومی مردم شماری سے 12.55 فیصد زیادہ ہے۔ تاہم ادارہ شماریات پاکستان کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تعداد ابھی تک عارضی ہے۔
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں مردم شماری اونٹوں پر
نیوز آؤٹ لیٹ نکئی ایشیا کی اطلاعات کے مطابق اپریل کے اواخر تک پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی پچھلی مردم شماری کے مقابلے میں تقریباً ایک فیصد کم ہو کر 15.85 ملین بتائی گئی۔ لیکن ماہرین کو یقین ہے کہ شرح پیدائش اور ملک بھر سے ہجرت کے باعث شہر میں آبادی میں اضافہ ضرور ہوا ہو گا۔
مردم شماری ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملے
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ غلط مردم شماری ایک اور بحران کو جنم دے سکتی ہے اور اس کے خلاف ممکنہ مظاہرے پہلے سے ہی مشکلات کی شکار حکومت کو مزید خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان: پہلی ڈیجیٹل مردم شماری، بے قاعدگیاں درست ہونے کی امید
پاکستانی عوام نے حکومت کی جانب سے حتمی نتائج جاری کرنے سے پہلے مزید شفاف مردم شماری کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں ساتویں قومی ہاؤسنگ اینڈ پاپولیشن مردم شماری کا فیلڈ آپریشن 15 مئی کو مقررہ تاریخ میں چھ بار نظر ثانی کے بعد ختم ہوا۔
پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں خواتین تین ملین کم کیوں؟
مردم شماری پر کیا سوالات اٹھ رہے ہیں؟
اس نئی مردم شماری میں پیدائش کا ملک، جنس، عمر، ازدواجی حیثیت، ملازمت کی حیثیت، مذہب، خاندان کے سربراہ کا نام، خاندان کے سربراہ سے تعلق، زبان کی صلاحیت، تعلیم یا خواندگی کی سطح، اور موجودہ جسمانی معذوری جیسے سوالات شامل ہیں۔
شمار کنندگان رہائش سے متعلق بھی ایسی معلومات جمع کرتے ہیں، جیسے کہ مکان میں کتنے بیڈ رومز، باتھ رومز ہیں اور عمارت کس قسم کی ساخت پر مبنی ہے۔
ملک کا قومی مالیاتی کمیشن آبادی اور دیگر عوامل کی بنیاد پر صوبوں کو فنڈز تقسیم کرتا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے ریسرچ فیلو شاہد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 86 فیصد سے زیادہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اگر مردم شماری کے دوران حساب کتاب غلط ہوا، تو یہ تقسیم بھی ناانصافی پر مبنی ہو گی۔
لاہور میں مقیم تجزیہ کار اکرام الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مردم شماری میں لوگوں کی شمولیت نہ ہونے سے وہ ترقیاتی منصوبوں سے محروم رہ سکتے ہیں، جبکہ آبادی کی درست مردم شماری ''ترقی کے لیے صحیح منصوبہ بندی'' کو یقینی بنائے گی۔
پارلیمنٹ میں نشستیں بھی آبادی کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں۔
دور دراز علاقوں کو چھوڑ دیا گیا
سیاسی جماعتیں اور کارکن یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بہت سے علاقے مردم شماری سے باہر رہ گئے اور خاص طور پر پاکستان کے ان دور دراز علاقوں کو چھوڑ دیا گیا جہاں طالبان کے دوبارہ ابھرنے سے نمٹنے کی کوشش کی جاری ہے۔ ایک تشویش یہ بھی ہے کہ ملک کے قدامت پسند علاقوں میں بہت سی خواتین کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔
کراچی میں سرگرم جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا کہ جنوب مشرقی صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں لاکھوں افراد کو صحیح طریقے سے شامل نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے عمل میں تصدیق کرنے کا نظام کمزور ہے۔
سابق رکن پارلیمان بشریٰ گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ '' مردم شماری کرنے والی ٹیمیں بیشتر دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچیں، جبکہ سابقہ قبائلی علاقوں کا تو انہوں نے دورہ ہی نہیں کیا۔'' انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کو بھی شمار نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے مغربی صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن یاسمین لہری نے بتایا کہ ان کے یہاں بہت سے علاقے سیکورٹی کے مسائل سے دوچار ہیں اور وہاں مردم شماری کے لیے اعداد و شمار جمع کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ''قبائلی معاشرے میں خواتین ان مردوں سے بات نہیں کر سکتیں جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ مردم شماری کا زیادہ تر عملہ مرد تھا، اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہت سی خواتین کو بھی درست طریقے سے شمار نہیں کیا گیا۔''
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج صوبے کی آبادی کی درست عکاسی نہیں کریں گے: ''اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں وفاقی وسائل کا حصہ کم ملے گا، جس کے نتیجے میں ترقی کم ہو گی۔''
انہوں نے اس بات کی جانب بھی نشاندہی کی کہ درست مردم شماری نہ ہونے کی صورت میں حکومت موثر ترقیاتی منصوبہ بندی بھی نہیں کر پائے گی۔
تاہم محکمہ مردم شماری سے وابستہ ایک اہلکار نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چھ ماہ سے کسی خاص جگہ پر رہنے والے یا ایسا کرنے کا ارادہ رکھنے والے تمام افراد کو شمار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''قبائلی علاقے، بلوچستان کے شورش زدہ علاقے اور ملک کے دور دراز حصے، سبھی کو شمار کیا گیا ہے اور تقریبا ًسو فیصد علاقوں تک پہنچا گیا ہے۔ سو فیصد کوریج کو یقینی بنانے کے لیے ہی آخری تاریخ میں بھی توسیع کی گئی۔''
انہوں نے بے ترتیب تصدیق کے عمل کا بھی دفاع کیا: ''نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے پاس لوگوں کا مکمل ریکارڈ نہیں ہے۔ 10 ملین سے زائد خواتین کے پاس تو قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہے۔ اگر ہم کارڈز کی بنیاد پر لوگوں کی گنتی کرتے، تو پھر بہت سی خواتین چھوٹ جاتیں۔''
تاہم لاہور میں مقیم ایک تجزیہ کار خالد بھٹی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانیوں کی ضروریات کا اندازہ آبادی کی درست گنتی کی بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔
ص ز / ج ا (ایس خان، اسلام آباد)