پاکستان میں مریضوں کے لیے ویزا فری انٹری، افغان باشندے خوش
19 اپریل 2024افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے حکومت پاکستان کے اس فیصلے کو سراہا ہے، جس کے تحت افغان مریضوں اور ان کی دیکھ بحال کے لیے آنے والوں کو ویزے کے حصول سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین گزشتہ کئی ماہ سے جاری کشیدگی کی وجہ سے اب عام حالات میں افغان شہریوں کے لیے پاکستان کا سفر مشکل ہو چکا ہے۔
اگست 2021میں افغانستان میں طالبان کی آمد اور انکی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مشکل سے دو چار ہیں لیکن اسکے باوجود پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کے لیے سرحد پار سے آنے والوں کو ویزے کی پابندی سے آزاد کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ کےگائنی وارڈ میں زیر علاج ایک افغان خاتون کے قریبی رشتہ دار عبید اللہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "دو دن قبل اپنی اہلیہ کو یہاں داخل کرایا تھا۔ اسے علاج کی وہ تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، جو یہاں مقامی مریضوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ مریضہ کو یہاں لاتے وقت ان سے کسی قسم کی فیس بھی وصول نہیں کی گئی اور دوسروں کی طرح ان کی اہلیہ کو بھی یہاں دستیاب ادویات اور سہولیات بلا امتیاز فراہم کی جاتی ہیں۔
عبیداللہ کے مطابق اس وقت ان کے جان پہچان والے کئی دیگر افغان باشندوں کے مریض بھی یہاں زیرعلاج ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ان میں سے کئی دل کے عارضے میں مبتلا ہیں تو بعض کو کینسر، گردوں ،سینے اور معدے کے امراض لاحق ہیں ۔ افغانستان میں ان بیماریوں کے مریضوں کے لیے کسی قسم کا علاج میسر نہیں اور نہ ادویات ہیں۔‘‘ انہوں نے مزیدکہا، '' ہم حکومت پاکستان اور باالخصوص پختونخوا حکومت اورعوام کے شکر گذار ہیں کہ وہ ہرمشکل میں ہمارا سہارا بنتے ہیں۔‘‘
لیڈنگ ریڈنگ میں متعدد افغان زیر علاج
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہاں آنے والے تمام افغان باشندوں کو علاج معالجے کی وہ تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، جو کسی بھی مقامی باشندے کو میسر ہیں۔ اس وقت بھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گائنی، کارڈیالوجی اور سرجیکل وارڈوں میں متعدد افغان مریض زیر علاج ہیں۔
ترجمان کے مطابق، ''ایمرجنسی میں آنے والوں سے ہسپتال میں کسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی ہے۔ داخلے کے وقت کسی قسم کے دستاویزات کی ضرورت نہیں پہلے مریض کا علاج شروع کیا جاتا ہے اور بعد میں بس اتنا کافی ہوتا ہے کہ مریض اور اس کے ساتھ آنے والا شخص بحثییت افغان اپنی شناخت کراسکیں۔‘‘
ان کے مطابق اس وقت بھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے تقریباﹰ ہر وارڈ میں افغان باشندے زیر علاج ہی
افغانستان میں زیادہ تر صاحب حیثیت لوگ پشاور میں نجی ہسپتالوں میں علاج کو ترجیح دیتے ہیں لیکن انہیں بھی میڈیکل ویزہ لینے سمیت دیگر حوالوں سے پاکستان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے ایک نجی ہسپتال میں اپنی مریضہ والدہ کو علاج کے لیے لانے والے حسیب اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پاکستان آنا اب ہم لوگوں کے لیے مشکل کردیا گیا ہے، چالیس سال سے حالت جنگ میں رہنے والے افغانستان میں کچھ بھی نہیں ہے اور جب آپ کے پیارے تکلیف میں ہوں تو آپ ان کی مشکل آسان بنانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا، '' میں نے اپنے گاؤں میں تیار فصل بہت ہی کم قیمت پر فروخت کرکے والدہ کو علاج کے لیے پاکستان لایا ہوں۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان آنے اور علاج کے لیے بہت سارے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے اور ساتھ میں یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ اگر ہسپتال کی حدود سے باہر نکلے تو یہاں کی پولیس حراست میں لے سکتی ہے اور یہ ڈر اس لیے بھی کافی زیادہ ہوتا ہے کہ مریض کے ساتھ صرف ایک رشتہ دار کو ساتھ آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
بلا امتیاز علاج
پشاور کے سات بڑے ہسپتالوں میں افغانوں کو بلا امتیاز علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ان میں تین نجی جبکہ چار سرکاری ہسپتال ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہر قسم کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جبکہ طورخم سے قریب نجی ہسپتالوں میں رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ، نارتھ ویسٹ اور شوکت خانم کینسر ہسپتال شامل ہیں جبکہ دیگر سرکاری ہسپتالوں میں خیبر ٹیچنگ ، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس،انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیزاور پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی شامل ہیں ۔
’افغانستان میں کوئی بڑا ہسپتال نہیں‘
علاج کے لیے پاکستان کا رخ کرنے والے افغانوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کوئی قابل ذکر ہسپتال ہے اور نہ ہی کوئی ماہر ڈاکٹر دستیاب ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ افغانستان کے زیادہ تر لوگ پاکستان اور باالخصوص پختونخوا میں رہ چکے ہیں، اس لیے انہیں یہاں کے طبی نظام اور ڈاکٹروں پر اعتماد ہے ۔ افغانستان میں ادویات بھی ناپید ہیں اورجو ہیں وہ قابل بھروسہ نہیں ۔
سابق افغان صدورحامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کے ادوار میں افغانستان میں کئی نجی ہسپتال قائم تھے اور ان میں گنتی کےچند معروف ڈاکٹر بھی تھے لیکن جونہی طالبان کا دورآیا وہ تین چار ڈاکٹر بھی یورپ اور امریکہ منتقل ہوگئے ۔ افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے ہاں اچھے ڈاکٹر ہوتے تو افغان باشندےمیڈیکل ویزہ کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کرکے پاکستان نہ آتے۔ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکل اور مہنگا کردیا گیا محض چھ ماہ کے ایک ویزے کے لیے کئی ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے اورایجنٹ بارہ سو سے پندرہ سو ڈالر لیتے ہیں ۔
’پاکستانی حکومت کے فیصلے کے نفاز میں مشکلات‘
حکومت پاکستان کی جانب سے حال ہی میں مریض اور اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک اٹینڈینٹ کو ویزے کے بغیر آنے کی اجازت دی گئی لیکن پشاور میں مقیم ایک افغان صحافی سادات نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " پاک افغان سرحد وں باالخصوص طورخم پر حکومتی اعلان کو ردی کی ٹوکری کی نظر کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک کمیشن بنایا گیا ہے، جو افغانستان سے آنے والے مریض کے کاغذات چیک کرکے انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کمیشن کے ارکان زیادہ ترافغان ڈاکٹروں کی سفارشات کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر مریضوں کے داخلے پر پابندیاں لگاتے ہیں۔‘‘
اس افغان صحافی کے مطابق پاکستانی حکومت کے اس اعلان پر عمل کیا جائے تو افغانوں اور باالخصوص بیماروں پر بڑا احسان ہوگا ۔انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی اب علاج بہت مہنگا کردیا گیا ہے اور ڈاکٹروں کی اوسط فیس پانچ سو روپے سے بڑھا کر تین ہزار روپے تک کر دی گئی ہے جبکہ ڈاکٹر جو تشخیص کیلئے ٹسٹ لکھتے ہیں سارے پیسے فیس اور ٹسٹ میں خرچ ہوجاتے ہیں پھر دوائی کیلئے پیسے نہیں ہوتے۔
انکا کہنا تھا وہ خود افغانستان میں معدے کی تکلیف کے بعد کئی ماہ تک مسلسل علاج کرواتے رہے لیکن افاقہ نہ ہونے پر وہ ویزہ لے کر پاکستان آئے اور یہاں ایک معروف گیسٹروانٹالوجسٹ کی تجویز کردہ دوائی سے انہیں بہت آرام پہنچا۔ سادات کا کہنا تھا کہ عام حالت میں پاکستانی ویزہ حاصل کرنے کے لیے ایک ہزار سے پندرہ سو ڈالر فی کس وصول کئے جاتے ہیں اور یہ سب ایجنٹ کی وساطت کیا جارہا ہے اسی طرح پاکستان میں رہائش پذیر افغان ویزوں کی تجدید کے لیے بھی بھاری رقوم ادا کرتے ہیں۔