پاکستان میں مہنگائی کی نئی لہر
3 جولائی 2009گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی برآمدات میں کم از کم 15فیصد کمی، درآمدات کی بڑھتی ہوئی قیمت اور خاص طور پر تیل کی مصنوعات کےلئے درکار کم از کم 9 ارب ڈالر سے پاکستان کے مالیاتی نظام پر دباؤ پڑ رہا ہے۔
اسی تناظر میں حکومت نے ایک طرف 750 ارب روپے کے لگ بھگ بجٹ خسارہ کم سے کم رکھنے کے لئے حال ہی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا ہے اور دوسری طرف قومی بچت سکیموں میں شرح منافع بھی 2 فیصد تک کم کر دی ہے۔ ان تمام اقدامات سے ملک بھر میں مہنگائی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں خاص طور پر ٹرانسپورٹ تنظیموں نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کےخلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا ہے تا کہ کرایوں میں اضافہ نہ کرنا پڑے کیونکہ اس سے براہ راست عوام متاثر ہوتے ہیں۔
دوسری طرف مشیر خزانہ شوکت ترین کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اقدامات سے افراط زر یعنی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔
’’یہ حدود افراط زر کے ساتھ متعین ہوتی ہیں، اگر افراط زر 25 فیصد سے گر کر 12.5 فیصد تک آ گئی ہے اب اگر یہ کہا جائے کہ قیمتوں کی سطح وہی رہے جو 25 فیصد افراط زر کے وقت تھیں تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اس سال افراط زر کی شرح جو کہ 9.5 فیصد رہی ہے یہ اسی سال کم ہو کر ایک ہندسہ میں آ جائے گی اور افراط زر کا تناسب 9.5 فیصد رہے گا۔‘‘
اقتصادی ماہرین کے خیال میں حکومتی خوش فہمی سے قطع نظر عام پاکستانی کی مالی مشکلات کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور خاص طور پر یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والے کم آمدنی کا حامل تنخواہ دار طبقہ اس سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔
رپورٹ امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت عاطف توقیر