پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً سات ملین
26 جون 2016آج چھبیس جون اتوار کا دن اقوام متحدہ کا منشیات کے استعمال اور منشیات کے غیرقانونی کاروبار کے خلاف عالمی دن بھی ہے، جو پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی اور اس میں منشیات کے عادی افراد کے تناسب کے لحاظ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت منشیات کی روک تھام کے لیے جتنی بھی کوششیں کر رہی ہے، وہ ابھی تک کافی ثابت نہیں ہوئیں اور ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد کتنی ہے، اس بارے میں وفاقی یا صوبائی حکومتیں کوئی سالانہ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے کوئی ریسرچ نہیں کرواتیں۔ اس سلسلے میں ایک بااعتماد ذریعہ اقوام متحدہ کا منشیات اور جرائم کی روک تھام کا دفتر ہے، جو یو این او ڈی سی کہلاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ دفتر بین الاقوامی سطح پر منشیات کے استعمال اور ان کی تجارت سے متعلق حقائق جمع کرتا ہے۔ UNODC کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیر قانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد سڑسٹھ لاکھ ہے، اور ان میں بھی سب سے بڑی تعداد پچیس سے لے کر انتالیس برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا گروپ پندرہ سال سے لے کر چوبیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔ ان قریب سات ملین افراد میں سے بیالیس لاکھ ایسے ہیں، جو مکمل طور پر نشے کے عادی ہیں۔
مشہور امریکی جریدے ’فارن پالیسی‘ کی دنیا بھر میں منشیات کے استعمال سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں منشیات کا استعمال کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں دہشت گردی کے نتیجے میں قریب ساٹھ ہزار افراد مارے گئے لیکن اس سے چار گنا زیادہ تعداد میں پاکستان ہی میں ہر سال منشیات کی وجہ سے انسانی ہلاکتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔
پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ترجمان سمیع خان نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’پاکستان میں منشیات کے عادی افراد ہیروئن کا استعمال اور شراب نوشی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ چرس ہے، جو تمباکو کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
سمیع خان نے بتایا، ’’اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں ہمارے ایسے بہت جدید علاج اور بحالی کے مراکز کام کر رہے ہیں، جہاں منشیات کے عادی مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری فورس اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ سے زیادہ آگہی کے لیے مختف ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام بھی کرتی ہے۔‘‘
اینٹی نارکوٹکس فورس کے ترجمان کے مطابق پاکستان میں صرف اس سال کے دوران اب تک منشیات کی اسمگلنگ کے قریب سات سو مختلف مقدمات قائم کر کے ساڑھے آٹھ سو کے قریب ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے نو غیر ملکی تھے۔ اس کے علاوہ حکام نے مجموعی طور پر ہزاروں ٹنوں کے حساب سے ہیروئن، چرس، کوکین اور دیگر تیز نشہ آور اشیا بھی اپنے قبضے میں لے لیں، جن کی بین الاقوامی منڈی میں مالیت قریب آٹھ سو ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ یہ تمام منشیات سکیورٹی اہل کاروں کی موجودگی میں بعد ازاں جلا دی جاتی ہیں۔
سمیع خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی صوبہ بلوچستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان وہ اہم راستہ بھی ہے، جہاں سے منشیات اسمگل کرنی کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم ہر سال جتنی بھی منشیات ضبط کرتے ہیں، وہ چھبیس جون کو اقوام متحدہ کے اسی عالمی دن کے موقع پر تلف کر دی جاتی ہیں۔ اس سال البتہ ہم نے رمضان کے مہینے کے باعث ایسا نہیں کیا۔ یہ ساری ضبط شدہ منشیات اب اگلے مہینے جلا کر تلف کر دی جائیں گی۔‘‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ’الفلاح‘ کے نام سے منشیات کے عادی افراد کے لیے ایک نجی بحالی مرکز چلانے والے ڈاکٹر عبدالحئی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارے سینٹر میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سینٹر میں آنے والے زیادہ تر افراد اٹھارہ سے پچیس سال تک کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیں، جن کا تعلق امیر گھرانوں سے ہوتا ہے۔ والدین بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے وقت دینے کے بجائے انہیں بے تحاشا پیسے تھما دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت، دہشت گردی، ناانصافی اور ملکی حالات بھی منشیات کے استعمال میں اضافے کے رجحان کے بڑے اسباب ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عبدالحئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نوعمر افراد متجسس ہوتے ہیں اور اسی تجسس میں وہ نشہ آور اشیا استعمال کرتے ہیں جن کے وہ بعد میں عادی ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نشے کے عادی ایک مریض کے علاج پر کم سے کم پچیس ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے اور اس بحالی میں کم از کم بھی تین سے چار ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ لیکن اگر نشے کی عادت کے ساتھ ساتھ مریض کو دیگر نفسیاتی یا جسمانی مسائل کا سامنا بھی ہو، تو علاج کا دورانیہ خاصا لمبا ہو جاتا ہے۔
منشیات کی اس لعنت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بہت چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ راول پنڈی کے علاقے فیض آباد میں بھیک مانگنے والی ایک خاتون سکینہ قاسم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا شوہر کئی سالوں سے نشہ کرتا ہے اور اس کا پورا خان دان پیشہ ور گداگر ہے۔ سکینہ نے کہا کہ اس کا شوہر ہر روز اس کے چھوٹے بیٹے کو بھی تھوڑی سی افیون دے دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ بچہ سارا دن سویا رہتا ہے۔
سکینہ نے بتایا کہ اس طرح بچہ تنگ بالکل نہیں کرتا، ورنہ اتنی گرمی میں تو بچے سارا دن روتے رہتے ہیں۔ سکینہ قاسم کے بقول وہ جس کچی بستی میں رہتی ہے، وہاں سبھی لوگ اپنے بچوں کو اسی طرح افیون دے دیتے ہیں۔ اس طرح ایسے والدین ان سوئے ہوئے بچوں کو دکھا کر دن بھر لوگوں سے اپنے لیے نقدی کی صورت میں بھیک مانگتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تیز منشیات کے استعمال کا آغاز چھوٹے نشوں سے ہوتا ہے، جیسے سگریٹ، پان اور گٹکے وغیرہ کا استعمال۔ انہی سے بعد میں افیون اور چرس جیسے نشوں کی لت پڑتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں جو نشہ آور اشیا عام استعمال کی جاتی ہیں، ان میں شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کیمیائی منشیات جیسے صمد بانڈ، شیشہ، نشہ آور ٹیکے اور سکون بخش ادویات سب سے نمایاں ہیں، جن کے استعمال کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔