1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد اور ان کی شناخت کا مسئلہ

17 اکتوبر 2024

ہمارے شناختی کارڈ پر ہماری صنف کے لحاظ سے عورت یا مرد لکھا جاتا ہے، اس کے بعد ہی مختلف سماجی سہولیات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ تمام مراعات جو کسی پاکستانی شہری کو ملنا چاہییں، ان کی بنیاد شناختی کارڈ ہی بنتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4ldqN
DW-Urdu Bloggerin Shumaila Husssian
تصویر: Privat

لیکن جب ہم مرد یا عورت کے خانے میں فٹ نہیں ہوتے،تو ہمیں ایک تیسری صنف کے طور پر پہچان ملتی ہے۔ وہ تیسری جنس پاکستان میں عام طور پر 'خواجہ سرا، مخنث،کھسرا، ہیجڑا‘ یا پھر ٹرانس جینڈر کے طور پر جانی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو ایک 'امبریلا ٹرم‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جس کے تحت پیدائشی طور پر تیسری صنف میں پیدا ہونے والے افراد اور مرد یا عورت کی شناخت کو اپنانے والے مخالف جنس کے سبھی افراد کو شمار کیا جاتا ہے۔

اب تک پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد بھی مرد یا عورت کے خانے میں ہی اپنی پہچان لکھواتے رہے ہیں۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ وہ جائیداد کے معاملات کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی اور معاشرتی حقوق میں برابر کے شریک ٹھہرائے جاتے ہیں اور اس کی بنیاد لامحالہ قومی شناختی کارڈ ہی ہوتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ایسے کسی بھی شناختی کارڈ کی موجودگی بھی ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں چونکہ ٹرانس جینڈر شہریوں کو لے کر بہت زیادہ کنفیوژن پائی جاتی ہے، اس لیے ان کے حقوق، جائیداد میں وراثت، ان کے مذہبی معاملات ، شادی اور دیگر قانونی معاملات میں ان کی حفاظت کے لیے کسی طرح کے قوانین واضح طور پر موجود نہیں ہیں اور اگر کہیں کچھ مذہبی احکامات موجود بھی ہیں، تو انہیں روایت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایکس شناختی کارڈ کا اجرا ہونے لگا ہے  مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ بہت کم ٹرانس جینڈر باشندوں نے اپنی اصل شناخت کے ساتھ اپنے کارڈ بنوانے کی ہمت کی ہے۔

پاکستان میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہونے کے باوجود مردم شماری میں بھی وہ اپنے آپ کو چونکہ ٹرانس جینڈر نہیں لکھواتے اوراکثر تو اپنے آئی ڈی کارڈ بھی نہیں بنواتے، تو ان کے لیے کہیں کوئی سہولت موجود بھی ہو تو وہ انہیں نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے جب سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلوں کی باری آتی ہے، تو ان کے لیے مخصوص نشستیں نہیں رکھی جا سکتیں اور ان کی ظاہری جسمانی حالت کی وجہ سے انہیں دوسرے طالب علموں کے ساتھ داخلہ بھی نہیں دیا جاتا۔

پھر یہ ہوتا ہے کہ ملازمت کے اشتہار میں مرد یا عورت کے لیے تو واضح کیا گیا ہوتا ہے، مگر ٹرانس جینڈر افراد کو اس گنتی میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ اس وجہ سے اگر کوئی پڑھا لکھا ٹرانس جینڈر فرد موجود ہو، تو اسے دوسرے مردوں اور خواتین کے ساتھ مقابلے میں شامل ہونا پڑتا ہے، جہاں یقینی طور پر اسے رد کر دیا جاتا ہے۔

دوسری طرف اگر کسی کو اپنے آئی ڈی کارڈ کے مطابق ایکس ہونا قبول ہو، تو وہ کسی جاب کے لیے پہلے تو اپلائی نہیں کر پاتا اور اگر وہ کرنا چاہے تو اسے پہلے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ چونکہ یہ عمل بہت طویل ہو جاتا ہے، اس لیے اس طرح کے کسی بھی طویل عمل میں پڑنے کے بجائے لوگ پہلے ہی ہمت ہار کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

اس پر ظلم یہ کہ اس کارڈ کی وجہ سے ماضی قریب میں ٹرانس جینڈر افراد کو مختلف دینی فرائض کی ادائیگی کی اجازت بھی نہیں ملتی تھی، مثلاﹰ انہیں اپنے بزرگوں کی جائیداد سے بھی حق نہیں ملتا تھا۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس تنظیموں کی کوششوں سے ایکس آئی ڈی کارڈ رکھنے والوں کے لیے بھی عام شہریوں جیسی سہولتوں کی طرف قدم بڑھائے جا رہے ہیں۔ اب حج اور عمرے کے لیے ایکس آئی ڈی کارڈ کے ساتھ بھی لوگ جا سکتے ہیں۔ البتہ ابھی ایکس کارڈ والے شادی نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے مختلف سوشل اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹس مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم معاشرے میں ٹرانس جینڈر افراد کو بھی ویسے ہی اپنائیں، جیسے ہم معاشرے میں عام مردوں اور عورتوں کو جگہ دیتے ہیں۔ اگر ہمارے آس پاس یا خود ہمارے ہی ہاں ایسا کوئی بچہ پیدا ہو جاتا ہے، تو اسے ناچنے گانے، سیکس ورک، یا بھیک مانگ کر کھانے پر مجبور کرنے کے بجائے اس کی پہچان سمیت اسے قبول کریں۔

قانونی اور سماجی معاملات میں انہیں با اعتماد بنانے کے لیے ب فارم اور شناختی کارڈ بھی ایکس جینڈر کے ساتھ بنوانے پر دوسروں کو اور خود کو سمجھائیں۔ انہیں معاشی اور سماجی طور پر طاقت ور اور بااختیار بنانے کے لیے ان کی اصل تعداد کا شمار ہونا سب سے اہم اقدام ہے، تا کہ ان کی تعداد کا تعین کر کے ان کے لیے ہر شعبہ زندگی میں کوٹہ مخصوص کیا جا سکے۔ ان کے لیے قوانین میں ترامیم ہو سکیں، مذہب میں اجتہاد کی راہ ہموار ہو سکے اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کی معاشرے کا مفید اور فعال رکن بننے میں مدد کی جا سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔