ٹرانس جینڈر ایکٹ ’غیر اسلامی‘ قرار دیے جانے کے نتائج کیا؟
28 ستمبر 2022سی آئی آئی کی اس تنقید کے خلاف پاکستانی سول سوسائٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سول سوسائٹی کو یہ خدشہ ہے کہ اس فیصلے کا رائے عامہ پر منفی اثر پڑسکتا ہے اور مذہبی انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف مذہبی حلقوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
انسانی جانوں کو خطرہ
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئر پرسن اسد بٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کو انتہائی منفی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ پر تنقید سے بہت سے لوگوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس ایکٹ کے حوالے سے نہ صرف سول سوسائٹی کے کئی حلقوں میں حمایت تھی بلکہ عام آدمی بھی جو ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے ہمدردی رکھتا ہے، ان کی حمایت میں بول رہا تھا۔ لیکن اب اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کے بعد کوئی بھی سیاست دان یا عام آدمی اس بل کی حمایت کرتے ہوئے ڈرے گا۔ مزید برآں یہ کہ ایسے لوگ جب عوامی اجتماعات یا عوامی جگہوں پر جائیں گے تو وہ خوف کا شکار ہوں گے کیونکہ کوئی بھی جنونی ان پر حملہ کر سکتا ہے۔‘‘
انتہا پسند تحریکوں کے لیے ایک ہتھیار
اسد بٹ کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا ملک میں کافی اثر ورسوخ ہے اور مذہبی عناصر ان کے فیصلوں کو مانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اس فیصلے نے تحریک لبیک جیسی تنظیموں کے ہاتھ میں ایک ہتھیاردے دیا ہےجو وہ روشن خیال حلقوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ وہ پہلے ہی مذہبی معاملات میں تشدد کا استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ ٹی ایل پی اور اسی طرح کی دیگر تنظیمیں ہر اس شخص کو ٹارگٹ بنانے کی کوشش کریں گی جو اس ایکٹ کی حمایت کرے گا۔‘‘
’اعتراضات غیر ضروری ہیں‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ چونکہ مذہبی عناصر کو معاشرے میں بہت زیادہ سیاسی پزیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ کوئی مسئلہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رکن اور معروف ویمن رائٹس ایکٹوسٹ انیس ہارون کا کہنا ہے کہ کونسل کے اعتراضات اور مذہبی طبقے کی جانب سے احتجاج بے بنیاد ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کونسل نے 2018 میں تو اس بل پر کوئی احتجاج نہیں کیا تاہم اب اس فیصلے سے مذہبی طبقے کو ایک ایشو مل جائے گا۔ لیکن ٹی ایل پی کے انتخابات میں جیتنے کے امکانات نا ہونے کے برابر ہیں اس لیے وہ اس قانون کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘‘
ایکٹ سے متعلق منفی پروپیگنڈہ
انیس ہارون کا کہنا تھا کہ کچھ مذہبی عناصر یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ اس ایکٹ کے مطابق ایک ہی جنس کے لوگ آپس میں شادی کرنے کے اہل ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا، ''کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم جنس شادیاں ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بل ٹرانس جینڈرزکی شناخت، تعلیم، علاج، روزگار اور دوسرے حقوق کے حوالے سے ہے۔ ٹرانس جینڈرافراد کو شادی کی قانونی طور پراجازت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو اس مولوی کو گرفتار کریں جس نے نکاح پڑھایا ہے اور ایسی شادیوں کے متعلق تفصیلات سامنے لائیں۔‘‘
فیصلے کی پزیرائی
دوسری طرف ملک کے کئی حلقے اس فیصلے کی حمایت بھی کررہے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کے رہنما رضوان سیفی نے اس فیصلے کو انتہائی مثبت قرار دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عوام میں اس ایکٹ کے حوالے سے بہت غصہ پایا جاتا ہے اور اس میں الیکٹرونک میڈیا نے بہت مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس قانون کے مندرجات کے حوالے سے عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ اب عوام کو اس ایکٹ کی حقیقت پتہ چل چکی ہے۔ تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کو سراہا رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد جو اس ایکٹ کی حمایت کررہے تھے اب وہ بھی اس ایکٹ کے خلاف بولیں گے۔‘‘
کونسل کا موقف
کونسل کے چیئرمین کی جانب سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کیا گیا جس میں لکھا گیا ہے، ''موجودہ ایکٹ میں مجموعی طورپر متعدد دفعات شرعی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں اور یہ نت نئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کونسل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ موجودہ ایکٹ کا جائزہ لینے کے لیے علما، ماہرین طب اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے جائے جو ٹرانس جینڈر افراد کے بارے میں موجودہ قانون کا تفصیلی جائزہ لے تاکہ اس مسئلے کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جامع قانون سازی کی جا سکے۔‘‘
ایکٹ کے حوالے سے مجوزہ تجاویز
یہ ایکٹ 2018 میں منظور ہوا تھا جس پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ترامیم تجویز کی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں متعلقہ بل میں ٹرانس جیںڈر کی تعریف پر اعتراضات ہیں۔جنس کی تعریف ایک شخص کی محسوسات پر چھوڑ دی گئی ہے اور اس کی بائیلوجیکل تعریف کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے شناختی کارڈ میں جنس کے خانے میں مرد لکھا ہے تب بھی وہ شخص نادرہ جا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ اس کے محسوسات عورت والے ہیں تو نادرہ کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے شناختی دستاویزات جیسے کہ ڈرائیونگ لائنس، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ پر جنس کے خانے میں تبدیلی اس کی منشا کے مطابق کر دے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک تعریف کو تسلیم کیا لیکن دو تعریفوں پر اعتراضات ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میں نے یہ بھی تجویز کیا تھا کہ ایک میڈیکل بورڈ بنایا جائے اور اگر کوئی شخص جنس کی تبدیلی کے حوالے سے دعوے دار ہے تو اس کے دعوے کی جانچ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے قانونِ وراثت سمیت کئی اور معاملات پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘‘