پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی ہڑتال
13 اکتوبر 2015ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپٹما کے سیکرٹری جنرل انیس احمد نے بتایا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹرکے لیے کام جاری رکھنا مشکل ہوتاجا رہا ہے۔ ان کے بقول اس وقت پینتیس فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور پاکستان کی پچاس فی صد ٹیکسٹائل فیکٹریاں اپنی پروڈکشن کا عمل صرف دو شفٹوں تک محدود کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہڑتال کی وجہ سے ٹیکسٹایل کے تمام کارخانے صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک اپنا کام بند رکھیں گے۔
انیس احمد کے بقول پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر پر حکومت نے بجلی کے سرچارج کی مد میں 78 ارب روپے، گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کی مد میں 38 ارب روپے اور انوویٹو ٹیکس کی مد میں 65 ارب روپے کا بوجھ لاد رکھا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعتکاروں کو ریجن کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ایک تو کم بجلی میسر ہے اور دوسرے یہ بجلی بہت مہنگے داموں ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کارکنوں کے معاوضے بھی بہت زیادہ ہیں۔
اپٹما پنجاب کے چیئرمین عامر فیاض شیخ نے منگل کی شام لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ سبسڈائزڈ بھارتی یارن کی پاکستانی مارکیٹ میں یلغار اور کپاس کی کم فصل کی وجہ سے پھٹی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے بھی اس سیکٹر کی مشکلات بڑھ چکی ہیں۔’’موجودہ صورتحال میں پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کے اس اہم سیکٹر کو سہارا دے۔‘‘
اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو ٹیکسوں کی مد میں رعایت دی جائے اور اس کے علاوہ غیر ملکی دھاگے کی درآمد پر 25 فی صد ڈیوٹی عائد کی جائے اور سستے نرخوں پر بجلی فراہم کی جائے۔ انہوں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے لانگ ٹرم فائنینس سکیم کو وسعت دینے، ایکسپورٹ ری فائنینس کی سہولت مہیا کرنے اور اس سیکٹر کے ریفنڈ کلیمز کی ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا۔
اپٹما کے رہنما نے دھمکی دی ہے کہ ان مطالبات کے نہ مانے جانے کی صورت میں وہ غیر معینہ مدت کی ہڑتا ل پر بھی جا سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی تباہی اس شعبے سے وابستہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی اقتصادی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گی۔
ٹیکسٹائل کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر اور ممتاز پولیٹیکل اکانومسٹ خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجا طور پر سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن ان کے بقول حکومت کی طرف سے ملنے والی سپورٹ محض عارضی سہارا ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل ٹیکسٹائل سیکٹر کو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ ان کے بقول ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی منڈی کی ضرورتوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہو گا اور فینشڈ پراڈکٹس یعنی کلاتھنگ سیکٹر کی طرف توجہ کرنا ہوگی۔