پاکستان میں پولیس ایک مرتبہ پھر نشانے پر
18 مئی 2010پائندہ خان نامی علاقے میں سائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ اس وقت کرایاگیا جب پولیس کی گاڑی اس مقام سے گزر رہی تھی۔ اس دھماکے میں مجموعی طورپر تیرہ افرادہلاک ہوئے جن میں ایک پولیس آفیسر ، دو اہلکار ، تین بچے وخواتین اوردیگر شامل ہیں۔
اس دھماکہ میں زخمی ہونیوالوں کو ہسپتال پہنچایاگیا، جہاں ڈاکٹروں کے مطابق کئی کی حالت نازک بتائی جاتی ہے پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل لیاقت علی خان کاکہناہے: ’’ یہ دھماکہ قبائلی علاقوں اورمالاکنڈ میں جاری آپریشن کا ردعمل ہوسکتاہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گرد آپریشن کی وجہ علاقہ چھوڑکر بندوبستی علاقوں میں روپوش ہوتے ہیں اور موقع دیکھ کر کارروائی کرتے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان، قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کاسرحدی علاقہ ہے جو ایک عرصہ سے دہشت گردی اورفرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں ہے۔ اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں کوامریکہ نے دنیا کاخطرناک ترین خطہ قراردیاہے، جہاں پاکستانی سیکیورٹی فورسز ایک عرصہ سے القاعدہ اورطالبان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔
اطلاعات کے مطابق القاعدہ اورافغان طالبان کے خلاف افغانستان میں امریکی اتحادی افواج کے آپریشن کے بعد انہوں نے ان علاقوں میں پناہ لی۔ پاکستان کادہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کے بعد ان علاقوں میں چھپے مطلوب افرادکے خلاف آپریشن شروع کیاگیا، جس میں وقتاًفوقتا ًتیزی دیکھنے میں آئی ان علاقوں بالخصوص وزیرستان نے گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی جب امریکہ کے شہرنیویارک میں پاکستانی نژاد امریکی فیصل شہزاد کو ٹائمز سکوائر میں بارود سے بھری گاڑی چھوڑنے اوردبئی فرارہوتے ہوئے گرفتارکیاگیا۔
فیصل شہزاد کادعویٰ تھاکہ انہوں نے وزیرستان میں بم تیار کرنے کی تربیت حاصل کی ہے جبکہ طالبان نے اس دعویٰ کی تردید کی ہے۔ امریکہ کے سیکیورٹی ایڈوائزر جیمز جونز اورسی آئی اے کے ڈائریکٹر لیوی پینٹا کے بعد اعلیٰ امریکی حکام کاپہلا دورہ ہے، اس دوران وہ حکومتی حکام سمیت سیاسی رہنماﺅں سے بھی ملاقات کریں گے۔
مبصرین کے مطابق امریکی حکام پاکستان پر قبائلی علاقوں میں موجود القاعدہ اورطالبان کے خلاف آپریشن میں تیزی لانے کیلئے دباﺅ ڈالیں گے پاکستانی فورسز اس وقت اورکزئی اورکرم ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کررہاہے۔ مبصرین کا کہناہے کہ وزیرستان میں آپریشن کاردعمل صوبہ خیبر پختونخوا میں سامنے آئے گا۔
رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور
ادارت: عاطف بلوچ