پاکستان میں پولیو ویکسین پینے سے سینکڑوں بچے بیمار پڑ گئے
22 اپریل 2019خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے پیر بائیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں یہ بچے مقامی اسکولوں کے کم عمر طلبہ تھے، جنہیں یہ ویکسین پینے کے بعد طبعیت خراب ہونے پر فوراﹰ مختلف ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا۔ مقامی حکام نے یہ بھی بتایا کہ آج پیر ہی کے روز اس واقعے کے بعد ان بچوں کے مشتعل والدین نے پشاور شہر میں پولیو سے بچاؤ کے ایک مرکز پر دھاوا بول کر اسے آگ بھی لگا دی۔
اس واقعے سے پاکستان میں محکمہ صحت کے کارکنوں کی اس بیماری کے خلاف کوششوں کو ایک اور دھچکا لگا ہے۔ پاکستان کے متعدد علاقوں میں پولیو سے بچاؤ کے لیے بچوں کی ویکسینیشن کے حوالے سے یہ خدشات بھی عام ہیں کہ طویل المدتی بنیادوں پر یہ ویکسین بچوں کے لیے صحت مند نہیں ہوتی۔
اس سلسلے میں ماضی میں شدت پسندوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی یہ افواہیں بھی پولیو ویکسینیشن کرنے والے کارکنوں کی کامیابی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہیں، جن کے مطابق یہ پولیو ویکسین مبینہ طور پر مغربی دنیا کی ایک ایسی سازش ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کی ’افزائش نسل کی جسمانی صلاحیت‘ کو ختم کرنا ہے۔
انہی بے بنیاد اور عجیب سی افواہوں کے پس منظر میں پاکستان کے مختلف حصوں میں گزشتہ برسوں کے دوران بہت سے پولیو ویکسینیشن کارکنوں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کو مسلح حملوں میں ہلاک بھی کیا جا چکا ہے۔
پاکستان، اس کا ہمسایہ ملک افغانستان اور افریقی ملک نائیجیریا اس وقت دنیا کے صرف تین ایسے ممالک ہیں، جہاں چھوٹے بچوں کو جسمانی طور پر معذور بنا دینے والے پولیو کے وائرس کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے نامزد کردہ پولیو کے خلاف طبی مہم کے نگران نمائندے بابر عطا نے بھی ابھی حال ہی میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ملک میں چھوٹے بچوں کو پولیو سے بچانے کی مہم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان بچوں تک رسائی ہے۔ اس لیے کہ بہت سے والدین اپنے نام نہاد خدشات کی وجہ سے یہ اجازت ہی نہیں دیتے کہ ان کے بچوں کو اس بیماری سے تحفظ کی ویکسین پلائی جائے۔
م م / ا ب ا (اے پی)