پاکستان: نجی پاور کمپنیوں کی گنگا، چینی بھی ہاتھ دھونے لگے
5 مئی 2023پاکستان میں نجی پاور کمپنیوں کے بل ہمیشہ سے حکومتوں کے لیے درد سر رہے ہیں اور ادائیگیوں کے اس مسئلے میں چینی کمپنیاں بھی آگئی ہیں۔ وزارت توانائی نے حکومت سے ایک کھرب 54 ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ نجی پاور کمپنیوں کو مختلف مدوں میں ادائیگی کی جائے۔ اس میں وہ چینی کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کو 250ارب ادا کیے جانے ہیں۔
بجلی اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی، عوام سراپا احتجاج
اس صورتحال نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ اگر پاکستان ان کمپنیوں سے جان نہیں چھڑاتا، تو اس پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھتا جائے گا اور اس کے امپورٹ بل میں بھی اضافہ ہوفا۔
واضح رہےکہ 1988ء کے بعد آنے والی حکومتوں نے نجی پاور کمپنیوں کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس نے سب سے پہلے ان کمپنیوں کو متعارف کرایا اور بعد میں تقریبا تمام حکومتوں نے انرجی پاور کمپنیوں کو سہولیات فراہم کیں اور ان سے مبینہ طور پر ایسے معاہدے کیے جو آج بھی توانائی کے ماہرین کے خیال میں انتہائی غیر منصفانہ تھے اور جن سے پاکستان کو مستقل نقصان ہو رہا ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی اور بھی مہنگی
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان گردشی قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی ایک وجہ یہی نجی پاور کمپنیاں ہیں، جو گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ان کو ایک معین مدت تک حکومت پیسے دینے کی پابند ہے۔ ان کمپنیوں کی ادائیگی کا پہاڑ ہر سال چھ مہینے بعد کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ماہ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ انکشاف کیا کہ حکومت کو صرف چینی نجی پاور کمپنیوں کے400 ارب روپے سے زیادہ ادا کرنے ہیں۔
سی پیک کے تحت پارو پروجیکٹس
چینی نجی کمپنیوں نے یہ پاور پروجیکٹس چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) معاہدے کے تحت لگائے تھے۔ سی پیک کے تحت تکمیل پانے والے والے پاور پلانٹس میں ساہیوال کول پاور پلانٹ، بن قاسم کول پاور پلانٹ، چائنہ حب کول پاور پروجیکٹ، اینگرو تھر کول پاور پروجیکٹ، قائد اعظم سولر پارک، ہائیڈرو چائنا داؤد فارم اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی تعداد چودہ ہے۔
سکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور گوادر کول پاور پروجیکٹ ابھی زیر تعمیر ہیں جب کہ سی پیک کے تحت مزید پانچ پرو جیکٹس زیرغور ہیں۔
سفید ہاتھی
پاکستان میں نجی پاور کمپنیوں کو پہلے ہی سفید ہاتھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حکومتی بجٹ کا ایک اچھا خاصا حصہ لے جاتی ہیں۔ کچھ اندازوں کے مطابق حکومت قرضوں کی ادائیگی اور فوجی بجٹ کے بعد نجی پاور کمپنیوں یا توانائی کے شعبے پر سب سے زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہے۔
معروف ماہر توانائی حسن عباس اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ کمپنیاں ایک سفید ہاتھی بن چکی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' 1952 سے پاکستان میں کچھ ایسے افراد رہے ہیں، جنہوں نے اس طرح کے توانائی کے معاہدے کیے ہیں، جس سے پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے۔ دنیا جن پروجیکٹس کو ترک کررہی ہے، ہم انہیں یہاں لگا رہے ہیں۔‘‘
حسن عباس کے خیال میں ان منصوبوں کی وجہ سے پاکستان کو مالی طور پر بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ''اس کی وجہ سے تیل ہمیں بہت زیادہ امپورٹ کرنا پڑتا ہے، جو ڈالر میں خریدنا پڑتا ہے۔ جب کہ نجی کمپنیوں کو ادائیگی بھی ڈالر میں ہوتی ہے۔‘‘
حسن عباس کے مطابق جن لوگوں نے یہ معاہدے کی انہوں نے پاکستان کے مفاد کو پیش نظر نہیں رکھا۔ '' سولر سے 7 روپے یا 8 روپے فی یونٹ میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ان نجی کمپنیوں سے ہمیں بجلی ہمیں بہت مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہے اور ان کمپنیوں میں چینی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔‘‘
نون لیگ اور پروجیکٹس
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں نجی پاور کمپنیوں کے پیچھے بااثر شخصیات ہیں اور اب چینی کمپنیاں بھی اس بزنس میں آگئی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کے مالی مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ اس حوالے سےحکمران جماعت مسلم لیگ نون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جس وقت یہ منصوبے لگائے جا رہے تھے، اس وقت نون لیگ نے یہ نہیں سوچا کہ سولر یا ماحول دوست دوست توانائی کے پروجیکٹس لگنے چاہیں۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے نجی پاور کمپنیوں سے معاہدوں کے حوالے سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سلمان شاہ کے مطابق وہ بات چیت کامیاب نہیں ہو سکی۔
کوئی حل نہیں ہے
چینی کمپنیوں کی ادائیگی اور گردشی قرضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان کبھی بھی ان کمپنیوں کی ادائیگی کے چکر سے نکلے گا بھی یا نہیں۔ حسن عباس کا خیال ہے کہ اس کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ''جب حکومت اس طرح کے معاہدے کرتی ہیں، تو وفاقی حکومت کو اس کی ضمانت دینی ہوتی ہے۔ یا تو پاکستان کے پاس اتنے پیسے ہوں کہ وہ چینی یا دوسری کمپنیوں کے ہرجانے ادا کرکے ان معاہدوں سے نکل جائے۔ لیکن اگر ہرجانے بغیر ہی نکلتی ہے تو بین الاقوامی اداروں میں پاکستان پر مقدمہ ہوجائے گا جس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔‘‘