پاکستان نے ڈرون کا مسئلہ عالمی فورم پر اٹھا دیا
16 جون 2016
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے ان حملوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیمیں حکومت سے کچھ زیادہ تواقعات وابستہ نہیں کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ڈرون حملوں میں مارے جانے والے شہریوں کے لیے قانونی جنگ لڑنے والے وکیل شہزاد اکبر نے کہا، ’’ایک غیرملکی دہشت گرد کے ہلاک ہونے پر، جس کی سر کی قیمت بھی لگی ہوئی تھی، حکومت اقوامِ متحدہ کے فورم پر پہنچ گئی ہے اور جو تین سو کے قریب پاکستانی ان حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں، حاکموں کو اُن کی کوئی فکر نہیں۔ جب آپ ایک دہشت گرد کے مرنے پر ایسے اداروں میں جائیں گے تو آپ کے موقف کی کون اخلاقی و قانونی طور پر حمایت کرے گا۔ اپنے شہریوں کے حوالے سے تو آپ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ ہم نے سی آئی اے کے خلاف مقدمہ درج کرایا، تو حکومت نے اس کی بھر پور مخالفت کی اور بعد میں اِس مقدمے کو فاٹا منتقل کردیا، جہاں پاکستان کے قوانین کا اس طرح اطلاق نہیں ہوتا جیسا کہ ملک کے دوسرے علاقوں پر ان قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا، ’’ اگر حکومت اِس حوالے سے کوئی موثر کام کرنا چاہتی ہے تو اِس کو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اٹھائے۔
ہیومن رائٹس کونسل میں تو یہ مسئلہ پہلے بھی اٹھا یا گیا تھا اور اس پر روس اور چین کے نمائندوں کے علاوہ اور بھی کئی لوگوں نے بات کی تھی۔ اس کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ فورم شہریوں اور عام افراد کے لیے ہے۔ ریاستوں کے لیے بہترین فورم سکیورٹی کونسل ہے، جہاں پاکستان اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی کے مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ میرے خیال میں حکومت اس معاملے میں مخلص نہیں ہے اور صرف سیاسی مقاصد کے لیے اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ ہم تین سو کے قریب ڈرون کے شکار ہونے والے افراد کے گھرانوں کامقدمہ لڑ رہے ہیں۔ ہم سے نہ حکومت نے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہمیں حاکموں سے کوئی امید ہے۔ حکومت کا وکیل تو آج بھی یہی کہتا ہے کہ وہ ہماری مخالفت کرے گا۔‘‘ دفاعی تجزیہ نگاربریگیڈیئر ریٹائرڈ شوکت قادر شہزاد اکبر کی بات سے متتفق نہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان سنجیدگی سے اس مسلئے کو اٹھانا چاہتا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ پہلا ڈرون حملہ دوہزار چار میں ہوا جب مشرف نے امریکا سے نیک محمد کو ٹارگیٹ کرنے کو کہا تھا۔ بعد میں امریکی شیر ہوگئے ۔ ڈرون کے حوالے سے ہمارا نکتہ نظر تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
جب ڈرون نے صرف ایسے دہشت گردوں کو ہدف بنایا جو ہمارے بھی دشمن تھے اور جس سے عام شہری ہلاک نہیں ہوئے تو ہم اِس پر خاموش رہے لیکن جب اس سے شہریوں کی ہلاکتیں زیادہ ہوئیں تو ہم نے اس پر احتجاج کیا۔ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ پہلے امریکا نے ہم سے کہا کہ طالبان سے بات کرو۔ جب ہم نے انہیں راضی کرلیا اور ہوسکتا ہے کہ ملا اختر منصور مذاکرات کے لیے ہی یہاں آرہا ہو، تو امریکا نے اس پر حملہ کر دیا اور ہمیں یہ بتایا کہ اُسے ایران یا افغانستان میں نہیں مارا گیا بلکہ پاکستان میں مارا گیا۔ اب کون طالبان پاکستان پر بھروسہ کرے گا تو امریکا نے بات چیت کو سبوتاژ کیا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’اگر دوبارہ حملہ ہوا تو پاکستان کیا کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ بین الاقوامی اداروں میں شور شرابہ کرے۔ امریکا عالمی طاقت ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اس کے حلقہ اثر میں ہے تو ہم اس کا کیا کر سکتے ہیں۔ جب جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جاسوسی کے حوالے سے معاملہ سامنا آیا تو کیا اس نے کچھ کیا۔ اس نے کچھ نہیں کیا۔ ہم کوئی دلہن کی طرح امریکا سے روٹھ کے تو نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘
جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’اب اگر پاکستان نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے تو اس کی گونج سارے بین الاقوامی اداروں میں سنی جانی چاہیے اور حکومت قوم کو اِس مسئلے پر اعتماد میں لے۔ مستقبل کے لیے امریکا کو وارننگ دے اور اگر پھر بھی ڈرون حملہ ہوتا ہے تو پاکستان اس کو گرادے۔ امریکا اور ساٹھ ممالک کی آرمی افغانستان میں کچھ نہیں حاصل کر سکے تو ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔